’’کتنا کند ذہن لڑکا ہے! جواب کیوں نہیں دیتا ہے؟۔ نالائق!‘‘ ٹیچر نے گرجتے ہوئے ایک چھوٹے سے لڑکے کی طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ جس کی عمر چھ سال تھی۔ لیکن وہ لڑکا اپنے ٹیچر کے بھاری بھرکم ڈیل ڈول اور گھن گرج سے بے پروا اس طرح بیٹھا رہا جیسے اس سے نہیں کسی اور سے یہ باتیں کہی جا رہی ہوں۔ لڑکے کا قصور یہ نہیں تھا کہ وہ جواب دے نہیں سکتا تھا۔ وہ جواب جلد دینا نہیں چاہتا تھا۔ وہ ہر بات پہلے اچھی طرح سوچتا، پھر کوشش ہوتی کہ جو جواب دے وہ معقول اور صحیح ہو، بس اسی میں دیر لگتی تھی۔ ایک دن جب اس کے گھر چچا میاں آئے ہوئے تھے، تو اس ٹیچر کا ذکر آ گیا۔
ماں مامتا کے جوش میں آ کر اپنے بیٹے کی غیر معمولی سنجیدگی اور خاموش طبیعت کی طرفداری کرتی ہوئی کہنے لگی: ’’اس ٹیچر نے کیا سمجھ رکھا ہے، میرے بیٹے کو! میاں دیکھ لینا، میرا بیٹا ایک دن پروفیسر بنے گا۔ پروفیسر!‘‘چچا میاں نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا: ’’البرٹ آئن سٹائن اور پروفیسر! پھر ایک دن وہ آیا جب وہ لڑکا یعنی البرٹ آئن سٹائن سچ مچ پروفیسر بن گیا اور پروفیسر بھی کیسا! دنیا کا سب سے نامور پروفیسر! کلرکی آئن سٹائن کو جہاں ریاضی اور طبیعات سے عشق تھا، وہیں اسکول کے امتحانوں سے نفرت تھی۔ اس روّیے کی وجہ سے طالب علمی کے زمانے میں اسے طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جوں توں کر کے یہ زمانہ گزر گیا۔
ملازمت کا مرحلہ آیا، تو اس کی خاطر کئی امتحان دینے پڑے۔ آخر میں اسے پیٹنٹ آفس میں معقول تنخواہ پر کلرک کی جگہ مل گئی۔ اس ملازمت کے لیے انٹرویو میں جب آئن سٹائن سے پوچھا گیا: ’’کیا آپ یہ کام کر سکیں گے؟‘‘ تو حسبِ عادت اس نے جواب دینے میں اتنی دیر لگائی کہ قریب تھا کہ اس کی درخواست ہی رَد کر دی جاتی اور کسی دوسرے کو بلا لیا جاتا۔ لیکن جب آئن سٹائن نے سر ہلا کر کہا: ’’جی ہاں، میرا خیال ہے کہ میں یہ کام کر سکوں گا۔‘‘ تو اس وقت اس کے چہرے سے خوداعتمادی اور اطمینان کے آثار جھلک رہے تھے۔
دفتر میں ریاضی آئن سٹائن نے کام شروع کیا اور بہت جلد اپنی غیر معمولی ذہانت سے اس میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ دن بھر کا کام چند گھنٹوں میں پورا کر لیتا۔ لیکن احتیاط یہ برتی کہ اس کا اظہار نہ ہونے دیا، تاکہ کہیں دفتر میں دوسرے کلرکوں کو سُست اور نکمّا سمجھ کر ان کے خلاف کارروائی نہ شروع کر دی جائے اپنا کام ختم کر کے آئن سٹائن میز کی دراز سے ایک فائل نکالتا جس میں ریاضی اور طبیعات کے نہایت پیچیدہ مسائل ہوتے۔ وہ ان مسائل کو حل کرنے میں لگ جاتا۔ اگر سامنے سے کوئی آتا ہوا دکھائی دیتا تو چپکے سے وہ کاغذات (جو ٹکڑوں کی صورت میں ہوتے) اپنی فائل میں چُھپا دیتا۔
رفیق جیسے جیسے دن گزرتے گئے، آئن سٹائن اپنے ’’نظریۂ اضافیت‘‘ کی بے پناہ گہرائیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ اس کے چھوٹے سے گھر میں دوچار نوجوان اکٹھے ہو کر اس نظریے پر بحث کیا کرتے تھے۔ ان میں ایس، این - بوس نام کا ایک ہندوستانی بھی تھا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بوس صرف آئن سٹائن کا گہرا دوست ہی نہیں، بلکہ ایک بلند پایہ ماہرِ طبیعات بھی تھا۔ 1914ء میں آئن سٹائن نے جو مقالہ شائع کیا تھا وہ اس کی اپنی تحقیق نہیں تھی، بلکہ یہ بوس کے اس مقالے پر مبنی تھا جس کا خود آئن سٹائن نے جرمن زبان میں ترجمہ کر کے شائع کرایا تھا۔ اس کے باوجود ہندوستانی سائنس دانوں میں بوس کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔
آئن سٹائن کے گھر پر جمع ہونے والے نوجوانوں میں سوئٹزر لینڈ کا ایک طالب علم بھی تھا۔ ان سب کی بحث سے آئن سٹائن کو اپنے نظریے کی جانچ کرنے اور اُسے پرکھنے کا اچھا موقع ملتا رہا۔ تہلکہ مچ گیا جون 1905 ء کی کوئی تاریخ تھی جب کہ لوگوں نے دیکھا کہ میاں آئن سٹائن ایک دبیز لفافہ بغل میں دبائے تیز تیز قدم بڑھائے ڈاک خانے کی طرف جا رہے ہیں۔ ڈاک خانے میں لفافے کا وزن کیا گیا، پھر بہت سے ٹکٹ چپکانے پڑے کیونکہ تیس صفحوں کا مقالہ، باریک حروف میں لکھا ہوا، جرمنی کے ایک سائنسی رسالے کے لیے بھیجا جا رہا تھا۔ اس مقالے میں آئن سٹائن نے اپنا نظریہ اور تحقیقات کا گویا نچوڑ پیش کیا تھا۔
پھر وہ دن آیا جب آئن سٹائن کا مقالہ شائع ہو گیا۔ جس کے ساتھ ہی سارے یورپ کے سائنسی علمی اور تحقیقی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا۔ ہر ایک کی زبان پر ایک ہی سوال تھا، یہ آئن سٹائن ہے کون؟ کس یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے؟ کون سی لیبارٹری میں کام کرتا ہے؟ کتنی عجیب بات ہے کہ آج تک کسی نے اس کا نام تک نہیں سنا تھا! ان سب سوالوں کا جواب تو بس اتنا تھا ’’آئن سٹائن سوئٹزرلینڈ کے شہر بَرن کے پیٹنٹ آفس میں ایک کلرک ہے!‘‘
0 Comments