Science

6/recent/ticker-posts

سنان بن ثابت : حران کا مشہور طبیب، ریاضی دان اور مترجم

حران کا مشہور طبیب، ریاضی دان اور مترجم ثابت بن قرہ تھا۔ سنان جس کا پورا نام ابو سعید سنان بن ثابت ہے، اسی ثابت بن قرہ کا فرزند تھا۔ اس کی پیدائش تو نویں صدی کے وسط یا اواخر میں حران میں ہوئی لیکن ابھی وہ خورد سال ہی تھا جب اس کا باپ ثابت بن قرہ بنو موسیٰ شاکر کے ایما پر حران سے ترک وطن کر کے اپنے پورے خاندان کے ساتھ بغداد میں آباد ہو گیا۔ اس لیے سنان بن ثابت کی ساری زندگی بغداد ہی میں گزری۔ جب پیرانہ سالی میں ثابت بن قرہ مسلمان ہو گیا تو سنان بن ثابت نے بھی جس کی عمر اس وقت 40 سال کے لگ بھگ تھی اسلام قبول کر لیا۔ سنان بن ثابت نے طب اور ریاضی کی تعلیم پہلے اپنے نامور والد ثابت بن قرہ سے حاصل کی اور پھر بعض دیگر اساتذہ سے، جن کی بغداد میں کچھ کمی نہ تھی، اکتساب علم کیا۔ 

جب خلیفہ معتضد تخت خلافت پر متمکن ہوا تو گو اس وقت افسر الاطبا کے منصب پر ثابت بن قرہ فائر تھا، لیکن پیرانہ سالی کے باعث وہ اس منصب کے فرائض پوری سرگرمی سے انجام نہیں دے سکتا تھا، اس لیے اس نے اپنی جگہ سنان بن ثابت کو مقرر کروا دیا جو اپنی لیاقت اور حذاقت کے باعث صحیح معنوں میں اپنے نام ور باپ کا جانشین تھا۔ جب معتضد کی وفات کے بعد سلطنت کی عنان مکتفی کے ہاتھ میں آئی تو اس نے سنان بن ثابت کے منصب میں اضافہ کیا اور اسے بغداد کے تمام سرکاری شفاخانوں کا مہتمم اعلیٰ بنا دیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس قدیم زمانے میں عباسیوں کی ترقی یافتہ سلطنت میں سفری شفاخانوں کا بھی انتظام تھا۔ یہ سفری شفاخانے وقتاً فوقتاً دور دراز دیہات کی غریب آبادی کو فائدہ پہنچاتے تھے۔ ان سفری شفاخانوں کا تمام انصرام اور اہتمام بھی سنان بن ثابت کے سپرد تھا۔ 

موجودہ زمانے میں چیف میڈیکل افسروں کا ایک فرض یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ جیل خانوں کا معائنہ کریں اور قیدیوں کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے جو اقدامات وہاں کیے جاتے ہیں ان پر نگرانی رکھیں۔ یہ امر بظاہر حیران کن نظر آتا ہے کہ آج سے کئی صدیاں پیشتر کی عباسی سلطنت میں موجودہ زمانے کے اس ترقی یافتہ دستور پر پوری طرح عمل ہوتا تھا۔ چناں چہ سنان بن ثابت کے فرائض میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ ان شفاخانوں کی دیکھ بھال کرے جو قید خانوں میں قائم تھے تاکہ قیدیوں کی صحت گرنے نہ پائے۔ چند برس حکمرانی کرنے کے بعد مکتفی وفات پا گیا اور خلافت اس کے بھائی مقتدر کے ہاتھ آئی۔ اس کا عہد کافی لمبا ہے۔ اس تمام مدت میں سنان بن ثابت نہ صرف اپنے پرانے منصب پر قائم رہا، بلکہ بعض جدید ذمہ داریوں کا اس میں اضافہ ہوا۔ 

مقتدر جب خلیفہ بنا تو عمر تھا، اس لیے بہت سے امور سلطنت کی نگرانی اس کی ماں کرتی تھی۔ وہ بڑی مخیر اور نیک خاتون تھی۔ اس نے بغداد میں اپنے ذاتی خرچ سے ایک شفاخانہ بنوایا تھا جو بیمارستان السیدہ کے نام سے موسوم تھا۔ یہ شفاخانہ سنان بن ثابت ہی کے اہتمام اور مشورے سے بغداد کے ایک مشہور بازار ’’سوق یحییٰ‘‘ میں قائم ہوا تھا۔ جب مقتدر جوان ہوا تو اس نے سنان بن ثابت کی نگرانی میں ایک شفاخانہ بغداد کے باب شام کے اندر بنوایا تھا جو اس کے بعد اس کے نام پر ’’بیمارستانِ مقتدر‘‘ کہلاتا تھا۔ مقتدر کے زمانے میں سنان بن ثابت کی حیثیت محض افسر الاطبا کی نہ رہی تھی بلکہ اس سے بڑھ کر ایک وزیر صحت کی ہو گئی تھی۔ ایک بار مقتدر کو اطلاع ملی کہ بغداد کے ایک عطائی طبیب کے غلط علاج نے ایک مریض کی جان لے لی ہے۔

اس واقعے سے متاثر ہو کر اس نے حکم دیا کہ بغداد میں جتنے مطب کر رہے ہیں، ان کا امتحان لیا جائے اور جو طبیب اس امتحان میں پورے اتریں، صرف انہی کو پریکٹس کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ بالکل اسی قسم کا انتظام تھا جیسا آج کل تمام متمدن ممالک میں رائج ہے اور جس کے تحت صرف سند یافتہ معالجوں کو رجسٹر کیا جاتا ہے۔ مقتدر کے حکم سے سنان بن ثابت نے کم و بیش ایک ہزار طبیبوں کا امتحان لیا جو بغداد میں مطب کرتے تھے۔ ان میں سے قریباً سات سو اس امتحان میں کامیاب اترے جن کو رجسٹر کر لیا گیا اور پریکٹس کرنے کی اجازت دے دی گئی لیکن باقی تین سو کو، جو اس امتحان میں ناکام رہے تھے، مطب کرنے سے روک دیا گیا۔ 

تذکرہ نویسوں نے اس امتحان کے بارے میں ایک دل چسپ حکایت لکھی ہے کہ ایک روز جب اطبا امتحان کے بعد رخصت ہو گئے تو ایک بوڑھے نے سنان بن ثابت کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے مطب کرنے کا خصوصی اجازت نامہ طلب کیا۔ سنان بن ثابت نے اس سے ابتدائی قسم کے سوالات کیے، یعنی آپ کا استاد کون ہے؟ آپ نے کہاں سے طب کا پیشہ سیکھا؟ ’’میں نے طب کی تعلیم کہیں سے حاصل نہیں کی لیکن میرا ایک بڑا خاندان ہے جس کے تمام افراد کی گزر ان اسی روپے پر ہے جو میں مطب کر کے کماتا ہوں، اس لیے میں درخواست کرتا ہوں کہ مجھے خصوصی اجازت نامہ بخشا جائے اور میرا اور میرے اہل و عیال کا واحد ذریعہ معاش بند نہ کیا جائے۔‘‘ 

سنان بن ثابت نے کہا ’’میں آپ کو ان شرائط پر خصوصی اجازت نامہ دیتا ہوں۔ ۱۔ آپ کسی ایسے مریض کا علاج نہیں کریں گے جس کے مرض کے متعلق آپ کچھ نہیں جانتے۔ ۲۔ آپ کسی مریض کی فصد نہیں کھولیں گے۔ ۳۔ آپ کسی مریض کو تیز مسہل نہیں دیں گے۔ ۴۔ آپ اپنے تمام مریضوں کے لیے صرف وہی دوائیں تجویز کریں گے جو سادہ اور بے ضرور ہوں۔‘‘ بوڑھے نے جواب دیا ’’جناب من! میں تو تمام عمر پہلے ہی سے ان شرائط پر کاربند رہا ہوں۔‘‘ اس پر سنان نے اس کو اجازت خصوصی دے دی۔ خلیفہ مقتدر کے قتل کے بعد اس کا بھائی قاہر اس کا جانشین ہوا، لیکن اس کی خلافت مختصر رہی اور امرا نے اسے قید کر کے مقتدر کے بیٹے راضی کو تخت خلافت پر بٹھا دیا، مگر راضی کو جوانی ہی میں موت کا بلاوا آ گیا۔ راضی کی وفات کے بعد عنان سلطنت اس کے بھائی کے ہاتھ آئی۔ سنان بن ثابت مقتدر کے بعد قاہر اور راضی کے عہد ہائے خلافت میں بھی بدستور اپنے جلیل منصب پر برقرار رہا۔

محمد عسکری


 

Post a Comment

0 Comments