ان کا نام ’’الحسن علاالدین علی بن ابی الحزم‘‘ تھا، ابن النفیس کے نام سے جانے جاتے تھے۔ آپ طبیب، قانون دان اور فلسفی تھے۔ دمشق میں 1213ء کو پیدا ہوئے، اور قاہرہ میں 1288ء کو وفات پائی۔ دمشق میں طب کے مشہور علما سے تعلیم حاصل کی خاص طور سے مہذب الدین دخوار سے، پھر مصر چلے گئے اور مستشفی الناصری (الناصری ہسپتال) میں خدمات انجام دیں اور پھر المستشفی المنصوری، جسے سلطان قلاوون نے تعمیر کرایا تھا، کے سربراہ اور سلطان بیبرس کے طبیبِ خاص مقرر ہوئے، وہ سلطان کے گھر میں امرا اور اکابرین طب کی مجلس میں شرکت کیا کرتے تھے۔
ان کے وصف میں کہا گیا ہے کہ وہ طویل القامت شیخ تھے، ڈھیلے گال اور دبلے تھے، صاحبِ مروت تھے، انہوں نے قاہرہ میں ایک گھر بنوایا تھا جس کے ایوانوں تک انہوں نے رخام لگوائی تھی، وہ شادی شدہ نہیں تھے چنانچہ انہوں نے اپنا گھر، مال اور تمام کتب بیمارستانِ منصوری کے لیے وقف کر دی تھیں۔ وہ مشہور طبی مؤرخ اور ’’عیون الانبا فی طبقات الاطبا‘‘ کے مصنف ابن ابی اصیبعہ کے ہم عصر تھے، دونوں نے ایک ساتھ ہی دخوار سے طب کی تعلیم حاصل کی تھی اور کئی سالوں تک مستشفی الناصری میں ایک ساتھ کام کرتے رہے، مگر ابن ابی اصیبعہ نے اپنی کتاب میں ابن النفیس کا تذکرہ نہیں کیا۔
کہا جاتا ہے کہ اس تجاہلِ عارفانہ کی وجہ ان دونوں کا آپس میں کسی بات پر اختلاف تھا، مگر پھر بھی ابن النفیس بہت ساری تاریخی کتب اور تراجم میں مذکور ہیں جن میں قابلِ ذکر عماد الحنبلی کی ’’شذرات الذہب‘‘ اور امام سیوطی کی ’’حسن المحاضرہ‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ مستشرقین کی ایک بہت بڑی تعداد نے ان کے بارے میں لکھا ہے جن میں بروکلمن، مایرہاف اور جارج سارٹن شامل ہیں۔ ابن النفیس کی شہرت صرف طب تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ لغت، فلسفہ، فقہ اور حدیث کے اپنے زمانے کے بڑے علما میں شمار کیے جاتے تھے، ان کی تصنیفات میں غیر طبی موضوعات پر بھی بہت ساری کتب ہیں۔
وہ اپنے زمانے کے مشہور اطبا میں سمجھے جاتے تھے، اس حوالے سے ان کی بہت ساری تصنیفات ہیں، ان کی طبی تصنیفات میں جرأت اور آزادی اظہارِ رائے کا بھرپور مظاہرہ ملتا ہے جو ان کے زمانے کے علما میں بالکل مفقود ہے۔ وہ اپنے زمانے کے علما کے برعکس ابن سینا اور جالینوس کے بر خلاف جاتے ہوئے ان پر کھلی تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔
0 Comments