خلا زمانۂ قدیم سے انسان کے لیے ایک معمہ رہی ہے۔ وہ زمین پر رہتے ہوئے آسمان پر چاند، ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں کا مطالعہ کرتا اور مختلف طرح کے نظریات قائم کرتا۔ انسان نے فضا میں اڑنے اور خلا میں جانے کا خواب ہمیشہ سے دیکھا۔ بالآخر ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی کہ وہ خلا میں جانے کے قابل ہو گیا۔ 12 اپریل 1961ء کو انسان نے ایک ’’معجزہ‘‘ کر دکھایا اور خلا کی جانب روانہ ہو گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سات اپریل 2011ء کو ایک قرارداد منظور کی جس میں 12 اپریل کو انسان کی خلا میں پرواز کا عالمی دن قرار دیا گیا۔
اس دن کو منانے کا مقصد بنی نوع انسان کے خلائی دور کے آغاز کو بین الاقوامی سطح پر منانا اور خلا کی تسخیر کی نئی راہیں ہموار کرنا ہے۔ 16 جون 1963ء کو ویلنٹینا تریشکووا زمین کے مدار میں جانے والی پہلی عورت بن گئیں۔ 20 جولائی 1969ء کو چاند کی زمین پر پہلا قدم رکھنے والا انسان نیل آرمسٹرانگ بنا۔ خلا میں انسان کا سفر بہت آگے تک جا چکا ہے اور اسے مزید آگے جانا ہے۔2017ء خلائی دریافتوں کے لئے ایک حیرت انگیز سال تھا۔ طبیعیات میں ایک نئے دور کی شروعات ثقلی لہروں کی شناخت سے ہوئی۔ پہلی بار انہیں ایک ٹیم نے 2016ء میں شناخت کیا۔ ناسا نے دس ایسی نئی دنیاؤں کا انکشاف کیا جہاں کا ماحول زندہ رہنے کے لیے سازگار ہے۔
دریافت ہونے والے تمام سیاروں کا سائز زمین کے لگ بھگ ہے۔ وہاں پانی کے ہونے کا بھی امکان ہے۔ خلائی تحقیق زمین کے مستقبل کے لئے بھی ضروری ہے ممکن ہے مستقبل میں زمین قابل رہائش نہ رہے۔ ایسی صورت میں انسان کو اپنا نیا ٹھکانہ خلا میں کہیں تلاش کرنا ہو گا۔ خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا نے گزشتہ سالوں میں ماحولیاتی تحقیق پر بھی کام کیا ہے۔ اس نے ہوا کے معیار، آب و ہوا کی تبدیلی، متبادل توانائی اور زمین کے قریب خلائی اشیا جو زمین کو تباہ کر سکتی ہیں، کا مطالعہ کیا ہے۔ خلائی ریسرچ نے بہت سی ایسی چیزوں کو دریافت کرنے میں مدد کی ہے جس کے بارے ہمارا گمان بھی نہیں جاتا، جیسے ڈائنو سورس کس طرح ختم ہو ئے اور چاند کس طرح بنا۔ خلائی ریسرچ اور ٹیکنالوجی سے ہزاروں مصنوعات تیار کرنے میں مدد ملی، جیسے ڈیجیٹل کیمرے، سیٹلائٹ، کیبل ٹی وی اور گوگل ارتھ۔.
0 Comments