سائنس کا جنم کہاں ہوا، کب ہوا اور کس نے کیا ؟ پہیہ سائنس کی سب سے بڑی ایجاد سمجھی جاتی ہے لیکن اس کا موجد کون تھا ؟ سب سے پہلے آگ کس نے جلائی تھی؟ ہندسے کس نے بنائے؟ صفر، جمع، تفریق، ضرب اور تقسیم کی دریافت کس نے کی؟ تاریخ دان کا جنم سائنس دان کے بعد ہوا۔ زبان بھی سائنس کے بعد پیدا ہوئی لیکن سائنس کے بہترین دماغوں اور انسانیت کے بہترین محسنوں سے واقفیت عام نہیں۔ دراصل دنیا میں کئی مقامات پر ارسطو اور ارشمیدس جیسے لوگ پیدا ہوئے۔ مگر جس مغربی سائنس کا آج ہم مطالعہ کرتے ہیں، اس کا براہِ راست رشتہ صرف یونان کے ارسطو سے ہی ملتا ہے۔
سائنس کا وجود ارسطو سے پہلے بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا۔ مگر اسے تواہم پرستی سے الگ ایک باقاعدہ علم کا درجہ حاصل نہ تھا۔ افلاطون کے شاگرد اور سکندراعظم کے استاد کے طور پر ارسطو اپنی زندگی میں ہی ممتاز ترین عالم شمار ہوتا تھا۔ اس کی پیدائش 384 ق م میں مقدونیہ کے ایک شہر میں ہوئی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اس نے ایتھنز میں افلاطون کی شاگردی قبول کی۔ یونانی فلاسفر شاگرد کی ذہانت سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اسے ذہانت کا مجسمہ قرار دیا۔ نوجوان طالب علم نے اپنی ساری آبائی دولت اپنے وقت کا سب سے بڑا کتب خانہ بنانے پر خرچ کر دی۔ اس کتب خانے کی سب کتابیں ہاتھ سے لکھی ہوئی تھیں کیونکہ اس وقت تک چھاپہ خانہ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ ارسطو کو اپنی زندگی شروع کرنے میں کوئی مشکل نہ آئی۔
پڑھائی ختم کرتے ہی اس کے پاس کئی شہزادے تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے لگے۔ ان میں ایک شاگرد ہرمیاس نے تخت نشینی کے بعد اپنے استاد کو اپنے دربار میں شامل ہونے کی دعوت دی اور عقیدت کے طور پر اس سے اپنی بہن کی شادی کر دی۔ ارسطو کی شہرت، تھوڑی ہی مدت میں اتنی پھیل گئی کہ اس زمانہ کا سب سے بڑا بادشاہ فلپ جب 344 ق م میں اپنے بیٹے اور مستقبل کے سب سے بڑے فاتح سکندر کے لیے دنیا کے سب سے بڑے معلم کی تلاش میں تھا تو اس کی نگاہ انتخاب ارسطو پر ہی پڑی۔ ادھر سکندراعظم نے اپنی فتوحات کے ذریعے چھوٹی چھوٹی مملکتوں کو ایک سیاسی نظام میں پرونا شروع کیا۔ ادھر فلاسفر ارسطو نے ذہنی میدان میں اپنی فتوحات کا سلسلہ شروع کیا اور سارے علوم کو فلسفہ کی ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی۔ مگر جہاں فوجی حاکم کی سلطنت کو منتشر ہونے میں زیادہ عرصہ نہ لگا، وہاں انسانی ذہنوں پر خاص کر یورپ میں فلاسفرز کا لگ بھگ مکمل تسلط کم از کم پندرہ صدیوں تک جاری رہا۔
ارسطو کی تعلیمات کا اثر پندرہویں صدی میں ایک نئے ذہنی انقلاب کی صورت میں ایک بار پھر نمودار ہوا جب قسطنطنیہ پر قبضہ کی وجہ سے عالمِ ارسطو کی تحریروں سمیت یورپ بھاگنے پرمجبور ہوئے۔ ان کے مطالعہ سے یورپ میں جو نئی تحریک جاری ہوئی اسے احیائے علوم کا نام دیا گیا۔ جس کا براہ راست نتیجہ موجودہ سائنس اور ادب ہیں۔ یقیناً کسی ایک دماغ نے انسانی ذہنوں پر اتنے لمبے عرصہ کے لیے کبھی حکومت نہیں کی۔ ارسطو نے 53 سال کی عمر میں اپنا سکول شروع کیا جس کے قواعد طلبا خود بناتے تھے۔ ہر دس دن کے بعد وہ اپنے نگران کا چناؤ کرتے تھے۔ اس سکول میں سائنس کے دیگر مضامین کے علاوہ نباتات اور حیوانیات کے مطالعہ کے خاص انتظامات تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایشیا اور یونان میں تقریباً ایک ہزار آدمی نباتات اور حیوانات کے نمونے جمع کرنے پر مامور تھے۔ ارسطو کے کہنے پر ہی سکندر نے دریائے نیل کے سیلابوں کی وجوہ کی کھوج کرنے کے لیے ایک مہم بھیجی تھی۔ سائنسی تحقیق کے لیے اس سے پہلے اس پیمانے پر انسانی اور مادی ذرائع کا کبھی استعمال نہیں ہوا۔
ارسطو سیکڑوں کتابوں، مضامین اور مسودوں کا مصنف تھا۔ سائنس کے علاوہ اس نے ادب اور فلسفہ کے بیشتر مضامین پر بھی اپنا قلم اٹھایا تھا۔ ارسطو نے کوئی نمایاں نئی سائنسی ایجاد نہیں کی اور نہ ہی سائنس کے کوئی دیرپا قوانین پیش کیے۔ یونان میں غلاموں کی سستی مزدوری دستیاب ہونے کی وجہ سے سائنس دانوں کو نئی مشینین ایجاد کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ تجربہ کے لیے آلہ جات کی عدم موجودگی میں سائنس کے جو قوانین ارسطو نے پیش کیے وہ سب کے سب بعد کے تجربات اور تحقیقات کی روشنی میں کھرے ثابت نہیں ہوئے۔ مگر سائنس محض مشینوں کی ایجاد کا نام نہیں بلکہ سائنس سوچنے کا ایک طریقہ بھی ہے۔
اس لحاظ سے ارسطو کے عظیم سائنس دان ہونے پر کوئی شک نہیں رہتا۔ کیونکہ ارسطو نے منطق کی جس سائنس کو جنم دیا، اس نے آنے والی نسلوں کے لیے سوچنے کے ضابطے اور ذہنی ڈسپلن کا ایک معیار پیش کیا۔ موجودہ سائنس کی بیشتر اصطلاحات وضع کرنے میں بھی اس کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ اس کے علاوہ سائنس کے میدان میں باقاعدہ تجربہ اور مشاہدہ کا رواج بھی ارسطو نے ہی ڈالا۔ حیوانات اور نباتات کی ان گنت قسموں کو اپنی تجربہ گاہ میں جمع کر کے ارسطو نے کچھ ایسے مشاہدے کیے، جنہیں آج کی سائنس بھی درست مانتی ہے۔ چنانچہ اس نے بے جان چیزوں سے لے جاندار مخلوق کی مختلف اقسام کو ایک ہی سلسلہ کی مختلف کڑیاں قرار دیا جسے بعد ازاں سائنس نے درست تسلیم کیا۔
ارسطو کی عظمت کا یہ عالم تھا کہ اس کی غلط باتیں بھی صدیوں تک عقیدہ کے طورپر قبول کی گئیں۔ اس کی عظمت سائنس کی مزید ترقی کی راہ میں دیوار بن گئی۔ 1600ء میں برونو کو اس لیے زندہ جلا دیا گیا کہ اس نے نظام شمسی کے بارے میں ارسطو کے خیالات کی تردید کی تھی۔ چالیس سال بعد گلیلیو کو اس وجہ سے موت کے گھاٹ اتارنے کی دھمکی دی گئی کہ اس نے ارسطو کے اس قول سے اتفاق نہیں کیا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے۔ سائنس پر ایک شخصیت کی اتنی مضبوط گرفت سے گھبرا کر تیرہویں صدی کے سائنس دان راجر بیکن نے اعلان کیا ’’اگر میرا بس چلے تو میں ارسطو کی سب کتابیں جلا دوں۔‘‘ارسطو یقینا ایک عظیم سائنس دان تھا۔ نئے علم کی بنیادیں رکھتے ہوئے، کچھ غلطیاں سرزد ہوجانا غیرمتوقع نہ تھا۔ یونان کا فلاسفر سائنس دان کامیاب زندگی گزارنے کے بعد 322 ق م میں وفات پا گیا۔
0 Comments