ٹیلی گراف یا تار برقی کی مدد سے آپ کا پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا ہے۔ کبھی یہ طریقہ بہت مقبول تھا۔ ان آوازوں کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔ صرف وہی لوگ ان کا مطلب سمجھ سکتے ہیں جو اس کام کی تربیت لیتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ آواز تاروں میں سفر نہیں کرتی بلکہ برقی ارتعاشات سفر کرتے ہیں۔ دوسری جگہ برقی ارتعاش پھر انہیں آوازوں میں تبدیل کر دیے جاتے ہیں اور آپ کا پیغام آپ کے دیے ہوئے پتے پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ الفاظ کو آوازوں میں نیز آوازوں کو الفاظ میں تبدیل کر نے کی باقاعدہ تربیت حاصل کرتے ہیں، جس نظام کے مطابق یہ تربیت دی جاتی ہے، اسے مورس کوڈ کہتے ہیں اور اسے سیموئل فنلے مورس نامی ایک موجد نے ایجاد کیا تھا۔
وہ 1791ء میں امریکا میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا، پھر بھی اس نے محنت کی اور ابتدائی تعلیم ختم کر کے کالج میں داخل ہو گیا۔ یہاں بھی مفلسی نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ اس لیے اس نے تصویریں بنانا شروع کر دیں۔ اسے تصویریں بنانے کا بہت شوق تھا۔ اس وقت فوٹو گرافی عام نہیں ہوئی تھی۔ ہاتھی دانت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر ہاتھ سے تصویریں بھی کھود لی جاتی تھیں۔ مورس ایک تصویر بنانے کے لیے پانچ ڈالر لیا کرتا تھا۔ تصویریں بنانے کے علاوہ اسے بجلی کے تجربوں سے بھی دلچسپی تھی۔ اس زمانے میں امریکا کی نسبت انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کی سہولیات زیادہ تھیں۔ اس لیے مورس نے انگلستان جانے کا ارادہ کیا۔ بڑی مشکل سے اس کا شوق پورا ہوا اور وہ انگلستان میں چار سال رہ کر امریکا واپس آ گیا۔ وہ اب بھی غریب تھا۔ بے چارہ معمولی کپڑے پہنے ادھر ادھر پھر کر تصاویر بیچا کرتا تھا۔
مورس کو شروع ہی سے موجد بننے کا شوق تھا۔ وہ ہر وقت اس فکر میں لگا رہتا تھا کہ کوئی ایسی چیز ایجاد کی جائے جو عوام کے کام آ سکے۔ مفلسی سے نجات پانے کے لیے اس نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر پانی اوپر چڑھانے کا پمپ بنایا، لیکن لوگوں نے اس کی کچھ قدر نہ کی اور وہ غریب کاغریب ہی رہا۔ تنگ آ کر اس نے یورپ کی راہ لی اور تھوڑا عرصہ وہاں گزار کر پھر واپس آ گیا۔ واپسی پر وہ جہاز کے ایک کمرے میں جہاں اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے، بیٹھا تھا کہ ادھر ادھر کی باتیں شروع ہو گئیں۔ ایک شخص نے کہا کہ اس نے پیرس میں بجلی کا ایک حیرت انگیز تجربہ دیکھا ہے۔ ایک کمرے میں بجلی کی تاروں کا جال بچھا ہوا ہے بجلی پل بھر میں ایک سے دوسرے سرے تک پہنچ جاتی ہے۔
یہ سن کر مورس نے کہا ’’اگر یہ بات ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ بجلی کی مدد سے ایک سے دوسرے جگہ خبریں نہ بھیجی جا سکیں۔‘‘ مورس کے جواب پر کسی نے دھیان نہ دیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔ لیکن مورس کے دل کو یہ بات لگ گئی اور اس نے تجربہ کرنا چاہا۔ وہ خود اتنا غریب تھا کہ معمولی تجربوں کا خرچ بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ البتہ اس کا شوق دیکھ کر اس کے بھائیوں نے ایک کمرہ اسے دے دیا جہاں وہ تار برقی کے بھدے سے آلے کی مدد سے اپنے تجربات کیا کرتا تھا۔ چند سال کے بعد مورس کی قسمت چمکی اور اسے ایک کالج میں پڑھانے کی جگہ مل گئی۔ وہاں بھی اس کا تار برقی کا شوق جاری رہا۔ خوش قسمتی سے ایک دولت مند شخص کا بیٹا اس کے ساتھ ہو گیا۔
اب مورس کی مالی مشکلات دور ہو گئیں اور اس نے اپنے تجربات آگے بڑھائے۔ وہ اپنی ایجاد سے کوئی نفع نہیں کمانا چاہتا تھا بلکہ اس کی خواہش یہ تھی کہ وہ دنیا کو ایک مفید آلہ دے اس نے بڑی محنت سے تجربات شروع کیے۔ چند اور آدمی بھی اس کے ساتھ ہو گئے۔ مسلسل کوشش کے بعد ایک مشین تیار ہو گئی جو بجلی کی مدد سے پیغامات ادھر سے ادھر بھیج سکتی تھی۔ اس مشین پر جو پہلا پیغام تھوڑے سے فاصلے پر بھیجا گیا، وہ یہ تھا ’’جو لوگ صابر اور مستقل مزاج ہوتے ہیں، ان کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔‘‘ یہ تھا دنیا کا پہلا تار۔ اس ایجاد کو بڑے پیمانے پر عام کرنے میں اب بھی ایک مشکل تھی، جیسا کہ قاعدہ ہے، لوگ نئی چیزیں آزماتے ہوئے ہچکچاتے ہیں اور انہیں شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اگرچہ امریکا کے صدر اور اعلیٰ حکام اس ایجاد میں دلچسپی رکھتے تھے۔ پھر بھی ملک کی سب سے بڑی مجلس اسے رائج کرنے پر روپیہ صرف کرنے کی منظوری نہیں دیتی تھی۔ بڑی مشکل سے واشنگٹن اور بالٹی مور تک جو امریکا کے دو مشہور شہر ہیں، تار برقی کا سلسلہ آزمائشی طور پر شروع کر نے کے لیے 30 ہزار ڈالر منظور ہوئے۔ کام شروع ہوا اور تار برقی کی پہلی لائن بچھا دی گئی ۔ پہلے تو تار نلوں کے ذریعے زمین میں ڈالے گئے۔ لیکن جلد ہی پتا چل گیا کہ تار بہت جلد خراب ہو جاتے ہیں اور بجلی بھی ضائع ہو جاتی ہے۔ مورس کو بڑی تشویش ہوئی کیونکہ اس کام کے لیے جو رقم منظور ہوئی تھی، اس میں سے اب صرف سات ہزار ڈالر باقی بچے تھے۔
دوسرا خطرہ یہ تھا کہ اب اگر وہ کسی تبدیلی کا اعلان کرتا ہے تو عوام اس کی طرف سے بدظن ہو جائیں گے کہ اس نے قوم کا روپیہ برباد کیا ہے۔ اس وقت مورس کو ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے زمین کھودنے والی مشین کو ایک بڑے پتھر سے ٹکرا کر توڑ پھوڑ ڈالا۔ اس کے بعد سوال پیدا ہوا کہ اب تار کس طرح بچھائے جائیں۔ آخر فیصلہ ہوا کہ تار لکڑی کے کھمبوں پر لگائے جائیں۔ اس طرح 1844ء میں دنیا کا تار برقی کا پہلا سلسلہ قائم ہوا۔ آہستہ آہستہ تار برقی کا سلسلہ امریکا سے نکل کر دوسرے ملکوں تک پہنچا اور پھر گاؤں گاؤں پھیل گیا۔ خشکی پر تو کھمبوں اور تاروں کا جال بچھا دیا گیا لیکن دنیا میں خشکی کم اور تری زیادہ ہے۔ براعظم کے درمیان سیکڑوں میل لمبے سمندر حائل ہیں۔ تار برقی کی ایجاد نے ترقی کی تو سمندر میں بھی موٹے موٹے تار ڈال دیے گئے۔ انہیں کیبل کہتے ہیں۔ اس طرح سمندرکے ذریعے دوسرے ملک کو پیغام یا خبر بھیجی جانے لگی۔ مورس کی امریکا اور یورپ میں بڑی عزت ہوئی۔ 1872ء میں جب اس کی عمر 81 برس تھی، وہ اس دنیا سے چل بسا۔
0 Comments