Science

6/recent/ticker-posts

ابن بطوطہ کا شہر طنجہ

1977 میں جبکہ میں صرف نو برس کی تھی میرے والدین مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو شمالی مراکش میں طنجہ کی سیاحت کو لے گئے۔ یہ موسم گرما کا وسط تھا۔ شہر کی قدیم بستی عدینہ میں خواتین چوڑے کناروں والے تنکوں کے ہیٹ پہنے اور سرخ و سفید دھاریوں والے کمبل لٹکائے گلیوں میں گھوم پھر کر پودینہ اور کدو بیچتی پھر رہی تھیں۔ لڑکے ان کھلے ڈبوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے جو اسپین سے آنے والی ممنوعہ اشیا، یعنی ٹرانسسٹر ریڈیو، پلاسٹک کی گھڑیوں، استعمال کے بعد ناکارہ اشیا سے بھرے پڑے تھے۔

دارالحکومت رباط سے تعلق رکھنے والی چھوٹی سی بچی کے لیے لباس، رسوم و رواج اور بولیوں میں علاقائی فرق اس امر کا ثبوت تھا کہ طنجہ ایک مختلف شہر تھا۔ طنجہ تاریخی روایات کا حامل ہے، طنجہ پرفسوں شہر ہے۔ اسی دنوں میں نے اپنے تصویری انسائیکلوپیڈیا میں یونانی اساطیر بشمول ہرکولیس کا مطالعہ کیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنی 12 ریاضتوں کے اختتام پر اس نے طنجہ کے قریب آ کر آرام کیا۔ لہٰذا جب اگلے روز ہم شہر سے 14 کلومیٹر دور ہر کولیس کے غار دیکھنے گئے تو خاص طورپر پُر جوش تھی۔

ہمیں اندر جا کر جو نظارہ دیکھنے کو ملا وہ قابل دید تھا۔ دیوار کے اندر افریقہ کی الٹی شکل کی طرح کا ایک خلا تھا جس کے مقابل فیروزی مائل نیلے آسمان اور گہرے نیلے بحراوقیانوس کی شبیہ دکھائی گئی تھی۔ جبکہ میں اپنے والد کا ہاتھ تھامے ڈر رہی تھی کہ کہیں گہرے پانی میں نہ گر پڑوں، چند نوجوان لڑکوں نے بڑی دلیری سے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ آیا ہرکولیس کا غار ایک ارضیاتی عجوبہ تھا یا انتہائی باہنر قبائل کی جانفشانی کا نتیجہ، کوئی بھی میرے سوال کی تشفی نہ کر سکا۔ طنجہ میں افسانے اور حقیقت کے مابین بہت خفیف فرق پایا جاتا ہے۔ ہرکولیس وہ واحد سیاح نہیں تھا جسے شہر کے اندر جنت ملی تھی۔ 

رومن یہاں ایک صدی قبل مسیح پہنچے تھے، پھر جرمن غارت گر، بنوامیہ، بنو عباس، ادریسی، مریندیسی اور بہت سی دیگر بادشاہتیں، بربر یا عرب مسلمان یا عیسائی، مقامی یا غیر مقامی آئے، پرتگیزی پندرھویں صدی میں حملہ آور ہوئے، طنجہ کے لوگ بھی ہسپانوی حکومت کے زیرنگین آ گئے تھے۔ چند برس بعد انگریز آ گئے۔ یہ سب ایک ہی چیز کے طلب گار تھے۔ ایک ایسا شہر جس کا براعظم کے عین سرے پر وقوع انہیں اس قابل بنا دے گا کہ وہ اندروں ملک سے ہونے والی بہت سی تجارت کو کنٹرول کر سکیں گے۔ وہ سب پھر وہاں سے چلے گئے، اگرچہ ہرکولیس کی طرح وہ اپنی کچھ نہ کچھ یادگار یا نشانی طنجہ میں چھوڑ گئے۔ ہسپانویوں نے چودہ سو نشستوں پر مشتمل تھیٹر بنوایا جہاں ان کے موسیقی اور اوپرا کے سب سے بڑے ستاروں نے دو عالمی جنگوں کے درمیان اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

برطانویوں کی یادگار چرچ آف سینٹ اینڈریو ہے جو اس قطعہ زمین پر تعمیر کیا گیا تھا جو انہیں سلطان نے عطیہ کیا تھا، اور جس کا ٹاور ایک مینار کی طرح نظر آتا ہے۔ طنجہ آپ کو اپنی طرف راغب کرتا ہے، اور پھر پرے دھکیل دیتا ہے، آپ کو دوبارہ اپنی طرف کھینچنے کے لیے۔ حتیٰ کہ تقریباً 25 برس دور رہنے کے بعد اس کا مشہور ترین سپوت ابن بطوطہ بھی واپس لوٹ آیا تھا۔ یہی کچھ میں نے کیا، بار بار۔ اس مرتبہ اپنے خاوند کے ساتھ۔ پہلی نظر میں مجھے شہر ویسے کا ویسا نظر آیا جیسا کہ میں اسے چھوڑ کر گئی تھی۔ 

لیلیٰ لالامی

(ترجمہ: اعزاز باقر)
 

Post a Comment

0 Comments