آپ کو ایک ایسے شخص کی زندگی کے حالات سناتے ہیں، جو علم کی خاطر زندہ رہا اور اسی کی خاطر مرا۔ وہ سچ مچ سائنس کا دیوانہ تھا۔ اس نے سائنس کے ایسے اصول بنائے کہ ہم آ ج تک ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہم سب کے لیے اس کی زندگی ایک سبق ہے، کیونکہ وہ ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوا تھا، جب پڑھنے لکھنے کے لیے آج جیسی آسانیاں موجود نہیں تھیں۔ یہ تقریباً 200 ق م پہلے کی کہانی ہے۔ بحیرۂ روم میں ایک جزیرہ ہے اور سسلی اس کا نام ہے۔ ہماری یہ کہانی اسی جزیرے کے ایک شہر سے شروع ہوتی ہے۔ ایک شام وہاں اچھی خاصی چہل پہل تھی۔ بہت سے لوگ ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ کچھ ہوٹلوں میں بیٹھے کھا پی رہے تھے۔
ملاح دن بھر کا کام ختم کر کے بندرگاہوں سے واپس آ رہے تھے کہ عجیب واقعہ ہوا۔ سب لوگ خاموش ہو گئے، بلکہ حیرت میں پڑ گئے۔ لوگوں نے تعجب میں ایک دوسرے سے کچھ پوچھنا شروع کیا، کیونکہ ایک جانا پہچانا سمجھ دار آدمی اپنی دھن میں مگن، ساری دنیا سے بے خبر چلا آ رہا تھا۔ اس کی بے خودی کا عالم یہ تھا کہ وہ کپڑے تک پہننا بھول گیا تھا۔ صرف ایک لفظ اس کے منہ سے نکل رہا تھا، جسے سب سن رہے تھے اور بس۔ کچھ لوگوں نے اسے دیوانہ سمجھا لیکن دوسروں نے اس کی مخالفت کی۔ یہ دیوانہ نہیں تھا۔ یہ تو اس زمانے کا نہایت مشہور اور عقل مند انسان تھا۔ وہ مانا ہوا ریاضی داں اور نہایت قابل انجینئر تھا۔ البتہ یہ راز کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ وہ اس حالت میں بازار میں کیوں نکل آیا۔
یہ راز اگلے دن کھلا۔ سائنس کا یہ شیدائی ارشمیدس تھا، جس کا بنایا ہوا اصول آپ نے اپنی کتابوں میں پڑھا ہو گا۔ سائنس کی تاریخ میں اس کا نام ہمیشہ رہے گا کیونکہ اس نے اپنی محنت سے علم و سائنس کی ایسی شمع روشن کی جس نے اس گئے گزرے دور میں بھی جہالت کے دھندلکوں کو دور کیا۔ حساب اور سائنس کے ایسے ایسے اصول وضع کیے جن پر بعد کے سائنس دانوں نے علم و ہنر کے عظیم قصر تعمیر کیے۔ جدید سائنس ان قدیم سائنس دانوں کی خدمات فراموش نہیں کر سکتی۔ ارشمیدس جزیرہ سسلی کے شہر سیراکیوز میں 287 قبل از مسیح میں پیدا ہوا۔ اسے وہاں کے بادشاہ کی سرپرستی حاصل ہوئی۔
شاید آپ نے یہ قصہ سنا ہو کہ بادشاہ نے اپنے لیے سنار سے ایک تاج بنوایا، لیکن جب تاج بن کر آیا تو بادشاہ کو اس کے خالص ہونے پر شک ہوا۔ بادشاہ سنار کو سزا دینا چاہتا تھا، لیکن اس کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے وہ ثابت کر سکے کہ تاج کے سونے میں کسی سستی دھات کی ملاوٹ کر دی گئی ہے۔ اس نے یہ کام ارشمیدس کے سپرد کیا۔ جو اس زمانے میں ریاضی کا استاد مانا جاتا تھا۔ اب تو یہ معمولی سی بات ہے۔ سونے کو کسوٹی پر پرکھ کر کھرا کھوٹا معلوم کیا جا سکتا ہے، لیکن اس وقت یہ کام بڑا مشکل تھا۔ ارشمیدس بھی سوچ میں پڑ گیا۔
وہ اس معمولی کام کو سائنس کی روشنی میں انجام دینا چاہتا تھا۔ اسے نہاتے وقت خیال آیا کہ ٹب میں ہمیں اپنا جسم ہلکا کیوں محسوس ہوتا ہے۔ وہ شہر کے غسل خانوں میں جاتا اور کافی دیر ٹب میں پڑا ہوا یہ تجربہ کرتا رہتا۔ ایک دن نہاتے نہاتے ارشمیدس کو نہیں معلوم کیا ہوا کہ وہ فوراً ٹب سے باہر کود پڑا اور ’’یوریکا‘‘، ’’یوریکا‘‘ کہتا ہوا غسل خانے سے نکل گیا۔ جس کا مطلب ہوتا ہے: میں نے معلوم کر لیا، مجھے معلوم ہو گیا ہے۔ وہ خوشی میں ایسا دیوانہ ہوا کہ شہر کے ایک بارونق بازار میں عجیب و غریب حالت میں نکل آیا۔ یہی وہ مشہور واقعہ ہے جس کا ذکر ہم نے اس کہانی کے شروع میں کیا ہے اور جس سے علم کے اس شیدائی کے شوق اور محنت کا پتا چلتا ہے۔
اگر انسان محنت کرے تو کوئی کام ناممکن نہیں ہے۔ گھر پہنچتے ہی ارشمیدس نے اپنا معلوم کیا ہوا اصول پھر تجربوں کی مدد سے جانچا۔ تجربے کے بعد اس نے کہا کہ کوئی جسم پورے یا جزوی طور پر ڈبویا جاتا ہے تو اس کے وزن میں کچھ کمی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ کمی اس مائع کے وزن کے برابر ہوتی ہے، جو اس جسم کے ڈوبنے کی وجہ سے اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے۔ اسی تجربے اور اصول کی وجہ سے ارشمیدس نے بادشاہ کو بتایا کہ اس کے تاج میں کتنا خالص سونا ہے اور کتنا کھوٹ ہے۔ اب بھی ارشمیدس کا یہ اصول اسی طرح مشہور چلا آ رہا ہے۔ اس انوکھے واقعے سے ارشمیدس اور بھی مشہور ہو گیا۔ یوں بھی وہ ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے باپ نے جو ایک ہیئت داں تھا، اس کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دی تھی۔ ارشمیدس کی ابتدائی تعلیم مصر کے شہر اسکندریہ میں ہوئی۔ مصر شروع سے ہی ایک زرعی ملک رہا ہے۔
ارشمیدس کو شروع سے انجینئرنگ سے دلچسپی تھی۔ اس نے آب پاشی کے لیے پیچ دار مشین ایجاد کی۔ آج ہماری بہت سی مشینیں اسی اصول پر کام کرتی ہیں۔ اس نے بعد میں مزید کئی مشینیں ایجاد کیں۔ آپ نے لیور یا بیرم کے بارے میں تو پڑھا ہوگا۔ ارشمیدس نے اسی سادہ مشین کے بارے میں کہا تھا مجھے ایک بڑا بیرم دے دو اور کھڑا ہونے کے لیے جگہ تو میں پوری زمین کو اٹھا دوں گا۔ خیر یہ بات تو ممکن نہیں تھی، لیکن ارشمیدس نے ایسی سادہ مشینیں ضرور ایجاد کیں جن کی مدد سے جہازوں پر سامان لادا اور اتارا جا سکتا تھا۔ آج بھی ہم بعض ایسی مشینیں استعمال کرتے ہیں۔ ارشمیدس نے اپنے ملک کو دشمنوں کے حملے سے بچانے کے لیے اور دشمن کو شکست فاش دینے میں بھی غیر معمولی خدمات سر انجام دیں۔
یہ اس وقت ہوا جب رومن جنرل مرسلیس نے ارشمیدس کے شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیا لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ارشمیدس نے ساحل پر ایسی مشینیں لگا رکھی ہیں جن کی مدد سے بڑے سے بڑا جہاز بھی غرق کیا جا سکتا ہے۔ کچھ جہازوں کو ارشمیدس نے رسیوں سے کھینچ کر چٹانوں سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش کر دیا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ اس نے چند عدسوں اور شیشوں کی مدد سے رومنوں کے جہازی بیڑے میں آگ لگا دی تھی۔ الغرض رومن فوج اس یونانی ریاضی داں کی نت نئی ایجادات سے بوکھلا گئی اور بھاگ کھڑی ہوئی۔ اس قدر شہرت اور قابلیت کے باوجود ارشمیدس کی زندگی نہایت ہی سادہ تھی۔ غرور اسے چھو کر بھی نہیں گیا تھا۔ حد یہ ہے کہ اس نے اپنی ایجادات کو کتابی شکل میں جمع کرنے تک سے انکار کر دیا۔
اسے اپنا نام چھوڑجانے کی کوئی خوشی نہیں تھی۔ اپنی علمی قابلیت ہی کے بل بوتے پر تین سال تک اس نے رومن فوجوں کو اپنے ملک سے دور رکھا، لیکن پھر جنرل مرسلیس نے دھوکے بازی سے علم پر فتح پا لی اور شہر میں داخل ہو گیا۔ جنرل مرسلیس اچھی طرح جانتا تھا کہ ارشمیدس ہی نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اس کے باوجود وہ قابلیت و ذہانت کی وجہ سے ارشمیدس سے محبت کرتا تھا۔ اس نے ارشمیدس سے ملنا چاہا اور ایک سپاہی اسے بلانے کے لیے بھیجا۔ جب سپاہی ارشمیدس کے گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ فرش پر بیٹھا ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچ رہا ہے۔ وہ اپنے خیالات میں اتنا محو تھا کہ اسے سپاہی کے آنے کا پتا تک نہ چلا۔ سپاہی نے ایک دو مرتبہ اسے اپنے جنرل کے پاس چلنے کے لیے کہا، لیکن اس نے پروا نہ کی۔ اس پر سپاہی نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
0 Comments