Science

6/recent/ticker-posts

باکمال مسلم سول انجینئرز

عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور کو عمارات سے دلچسپی تھی۔ اس نے بغداد کو ایک نئے پلان کے مطابق نئے سرے سے تعمیر کرانا چاہا۔ انجینئروں کی ایک جماعت اس سلسلے میں مقرر کی گئی۔ نوبخت اور فضل بن نوبخت، یہ باپ اور بیٹے اس کام کے نگران تھے۔ یہ دونوں باکمال سول انجینئر تھے اور ان میں انتظامی صلاحیت اور قابلیت بھی تھی۔ شاہی دربار کی خاص عمارت کا گنبد زمین سے بہت بلند تھا اور اوپر ایک سوار کا مجسمہ نصب تھا۔ فضل بن نوبخت نے اس فن کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی اور اپنی صلاحیتوں سے بہت سے کام کیے۔ اس دور میں کتب خانہ بھی قائم ہوا۔ فضل بن نو بخت نے کتابیں جمع کر کے ان کی فہرست تیار کی۔ غالباً دنیا کا یہ پہلا باقاعدہ شاہی کتب خانہ تھا جو حکومتِ وقت نے تعمیر کرایا اور اخراجات برداشت کیے۔ 

ہارون رشید کے عہد میں بغداد علم و فن کا مرکز بن گیا۔ نوبخت بغداد کا معمار ہے۔ اسی سمجھ دار انجینئر نے عمارتوں کا پلان بنایا اور تعمیرات میں نمایاں حصہ لیا۔ عراق میں بنو عباس کی حکومت مستحکم ہو چکی تھی۔ اس اہم اور بڑے کام کے لیے تجربہ کار اور سمجھ دار انجینئروں کی ضرورت تھی، نوبخت نے اس کام کو نہایت عمدگی سے انجام دیا۔ نوبخت نہایت ذہین، باصلاحیت اور محنتی نوجوان تھا۔وہ ابتدائی تعلیم و تربیت معمولی مدارس میں حاصل کر کے پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔ اس نے علم ہیئت اور دیگر علوم میں مہارت پیدا کی۔ نوبخت کو انجینئرنگ سے دلچسپی تھی، اس نے عمارتوں کے پلان بنانے اور تعمیر کے فن میں کمال پیدا کیا۔ خلیفہ منصور کو متعدد انجینئروں کی ضرورت تھی۔ ان میں نوبخت بھی منتخب کیا گیا۔ 

نوبخت بہت ہوشیار سول انجینئر اور پیمائش کرنے والا (سرویئر) تھا۔ مکمل شہری آبادی کی پلاننگ میں اسے بڑی مہارت حاصل تھی۔ غوروفکر کے بعد بادشاہ کی خواہش کے مطابق شہر بغداد کا دائرے کی شکل میں پورا نقشہ تیار کیا۔ کہتے ہیں کہ شاہی دربار کی گنبد نما عمارت زمین سے کوئی 240 فٹ بلند تھی اور وسیع و عریض اس عمارت کے اونچے اور شاندار گنبد پر ایک شہسوار کا مجسمہ نصب تھا۔یہ مجسمہ دھات کا تھا اور شاہی محلات، باغات اور دیگر عمارتیں ایک گل دستے کی طرح باہم مناسبت سے بنی ہوئی تھیں۔ نوبخت اور اس کے معاون انجینئروں نے بغداد کی پلاننگ میں اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ اس وقت کی دنیا میں یہ انوکھا تخیل تھا اور یہی بغداد آئندہ الف لیلہ کی کہانیوں کا مرکز بنا۔

فضل قابل باپ کا ہونہار بیٹا تھا۔ اس نے تعلیم اپنے باپ سے حاصل کی اور مطالعہ میں مصروف ہو گیا۔ وہ جلد ہی علم ہیئت میں یکتائے روزگار بن گیا اور شہر کی تعمیر میں اپنے والد کے ساتھ کام کرنے لگا۔ وہ علم ہیئت میں بھی اپنے والد کی مدد کرتا اور مشاہدۂ افلاک میں ساتھ رہتا۔ فضل نے کئی علمی اور فنی کتابوں کے ترجمے بھی کیے۔ اسے کتابوں سے خاص انس تھا۔ اکثر کتابوں کو تلاش کر کے لاتا اور ان کو اپنے کتب خانے میں بڑے ڈھنگ سے ترتیب کے ساتھ رکھتا تھا۔ اس دور میں بغداد علم و فن کا مرکز بن گیا تھا۔ ہارون رشید کا عہد تھا، اسے کتابوں سے خاص دلچسپی تھی، شاہی کتب خانے کی ابتدا ہو چکی تھی، بادشاہ نے فضل کو شاہی کتب خانے کا مہتمم اور نگران مقرر کیا۔ فضل نے شاہی کتب خانے میں کتابوں کو ترتیب میں رکھا، رجسٹر بنایا اور کتابوں کی فن وار فہرست بنائی۔ یہ اس دور کا عظیم کتب خانہ بن گیا۔

ابراہیم عمادی

Post a Comment

0 Comments