میں آج ملکی ترقی میں انجینئرز کے کردار پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ وہ اس لئے کہ
میں خودبھی انجینئر ہوں اور میں نے ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ دونوں اعلیٰ یونیورسٹیوں سے کئے ہیں۔ مگر سب سے پہلے میں سر جارج تھامسن (نوبیل انعام یافتہ) کا ایک قول بتانا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا تھا کہ، ’’ہم نے کچھ عرصہ سے اپنی تہذیب کو ان دھاتوں سے منسوب کیا ہے جو عوام اس وقت استعمال کررہے تھے مثلاً پتھروں کا زمانہ، بُرونز (Bronze) کا زمانہ، لوہے کا زمانہ وغیرہ وغیرہ‘‘۔ کسی بھی تہذیب (زمانہ) کی ترقی یا جہالت کا انحصار اس تہذیب کے پاس جو دھاتیں ہوتی ہیں ان کےصحیح یا غلط استعمال یا کوئی استعمال نا کرنے پر منحصر ہوتا ہے۔ موجودہ دور لوہے اور نئی طاقتور دھاتوں کا ہے۔
میرا اپنا خیال یہ ہے کہ ہم اب بہت منفرد اور اعلیٰ دھاتوں کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں نہایت حسّاس اور اعلیٰ ٹیکنالوجی پر منحصر صنعتوں کا پھیلائو بغیر اعلیٰ دھاتوں کے ناممکن ہے۔ آجکل بہت طاقتور دھاتیں اور ہائی ٹمپریچر دھاتیں، سِرامکس، کمپوزٹس، پولیمرس پر کام ہو رہا ہے کہ ان کو منفرد اور خاص صنعتوں کی تعمیر میں استعمال کیا جا سکے۔ دور جدید کی ایجادات مثلاً اسپیس شٹل، آپٹیکل فائبرز اور چھوٹے منفرد کمپیوٹرز کی تیاری بغیر اعلیٰ اور خاص دھاتوں کی موجودگی میں ناممکن ہوتی۔ اعلیٰ اور پیچیدہ صنعتوں میں استعمال کے لئے تیار کردہ دھاتیں آہستہ آہستہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے لگتی ہیں۔
میں اس موضوع پر یہ کالم اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اس سے پیشتر اس موضوع پر کسی نے طبع آزمائی نہیں کی ہے۔ اب جبکہ نئی صنعتیں لگائی جا رہی ہیں میں کوشش کر رہا ہوں کہ عوام کی رہنمائی کروں۔ اس سے لوگوں میں اعلیٰ دھاتوں کو استعمال کرنے کی سمجھ بوجھ آ جاتی ہے اور وہ ان دھاتوں کی خصوصیات مثلاً ان کی فزیکل اور میکنیکل خصوصیات، آکسی ڈیشن اور کور وژن (زنگ لگنا)، زنگ سے دھاتوں کو محفوظ کرنا(کوٹنگ) اور ان دھاتوں کو الیکٹران بیم سے پہچانا اور علیحدہ رکھا جانا، سے واقف ہوجاتے ہیں۔ دیکھئے اچھی دھاتوں کی تیاری اور اس کا معائنہ بغیر اعلیٰ آلات (جانچنے والے) کے ناممکن ہے۔ دور جدید میں ٹیسٹ کرنیوالے نہایت حساس و اعلیٰ آلات کی ضرورت ہے انکے بغیر آپ اعلیٰ جانچ؍ ٹیسٹ نہیں کر سکتے۔ اچھے آلات تو نہایت باریک خصوصیات کا پتہ چلا لیتے ہیں دراصل یہ جانچ و ٹیسٹ کرنے والے آلات میں ایکسرے، نیوٹران اور الیکٹران ڈِفریکشن اسپکٹراسکوپی آجکل موجود ہیں اور ان کی مدد سے کسی بھی دھات کی ساخت، کمپوزیشن، اور میکانیکل خصوصیات (پراپرٹیز)، کیمیائی خصوصیات معلوم کر لی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ ان آلات کی مدد سے ایٹم کی تقسیم و پھیلائو کا بھی علم ہو جاتا ہے۔ مجھے یہ بتانے میں فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے KRL میں ان تمام اہم و حساس آلات کا بندوبست کر لیا تھا اور ان کی مدد سے ہم نہایت پیچیدہ اور اہم معلومات حاصل کر لیتے تھے۔ پہلے ڈاکٹر ایف ایچ ہاشمی، پھر پروفیسر ڈاکٹر انوار الحق اور پھر ڈاکٹر محمد فاروق اس ڈویژن کے سربراہ تھے۔ ڈاکٹر ہاشمی نے لندن یونیورسٹی سے، ڈاکٹر انوارلحق نے جرمنی سے اور ڈاکٹر فاروق نے آکسفورڈ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کی تھیں اور تینوں بہت ذہین اور قابل سائنسدان تھے۔
نمونوں کو بغیر توڑے پھوڑے (NDT - Nondestructive Testing) ان کی خصوصیات و کمپوزیشن کا معلوم کرنا بہت پیچیدہ اور مشکل کام ہے، ہمارے یہاں انجینئر نورالمصطفیٰ اور مشتاق پٹھان اس کے ماہر تھے۔ اس سلسلہ میں یہ بھی بتلاتا چلوں کہ دھاتوں اور دھاتوں سے تیارکردہ کمپونینٹس (Components) کی عمر یا مفید استعمال کا دور جاننے کے لئے تھکاوٹ (Fatique)، ٹوٹنا (Fracture) اور آہستہ آہستہ کمپونینٹس کے سائز بڑھنا (Creep) وغیرہ نہایت اہم خصوصیات ہیں جن کا پاکستان میں استعمال اور سمجھ بوجھ بہت کم ہے اور یہ وہ خصوصیات ہیں جو نہایت اہم ہیں اور ہر آلے اور مشینری کے استعمال اور ان میں تبدیلی وغیرہ کو جانچتے رہنا بہت اہم ہے۔ میرے پاس اوپر بیان کردہ اعلیٰ سائنسدان اور انجینئرز تھے اور ہم نے اس میدان میں اعلیٰ صلاحیت حاصل کرلی تھی۔
دیکھئے مشکل و اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حصول میں ہمیں ہر فیلڈ میں ترقی کرنا چاہئے جب تک ہماری بنیاد (یعنی فائونڈیشن) مضبوط نہیں ہو گی ہم نئی اور اعلیٰ ٹیکنالوجی نہ حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ یورپ، امریکہ، جاپان، چین اور انگلینڈ میں یہ مضامین شروع میں ہی پڑھا دیئے جاتے ہیں اور تمام آلات کا استعمال بھی سکھا دیتے ہیں۔ ان کے ماہرین (پروفیسرز) اکٹھے بیٹھ کر ایک پورا پروگرام بنا لیتے ہیں جو ان کی صنعتوں کے لئے بے حد مفید و موثر ہوتا ہے اور پھر یہ طلبا ریسرچ کا کام سنبھال لیتے ہیں اور اس طرح یہ ممالک ترقی کرتے جاتے ہیں۔ ہمیں بھی اپنی سائنس و ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے لئے یہی طریقہ کار استعمال کرنا چاہئے۔ بدقسمتی سے یہ چیز یہاں عنقا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم بین الاقوامی سطح پر دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہمیں نہ صرف اپنی تعلیم پر بلکہ ٹیکنیکل تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ ہم ہمیشہ پسماندہ ہی رہیں گے۔ ہمیں ٹیکنیکل سیمینار کرنا چاہئے اور غیرملکی ماہرین کو دعوت دینا چاہئے تا کہ ہمارے طلباء نئی ایجادات سے بہرہ ور ہو سکیں۔ ہمیں زیادہ طلبا کو غیر ممالک بھیجنا چاہئے کہ وہاں سے وہ دور جدید کی اعلیٰ ٹیکنیکل تعلیم حاصل کر سکیں اور پھر واپس آ کر ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹائیں۔
بدقسمتی سے اربوں روپیہ معمولی پروجیکٹس پر خرچ کر دیئے جاتے ہیں اور تعلیم کو صرف ایک بے فائدہ ورزش سمجھ رکھا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان انجینئرنگ کونسل (PEC) نے ایک ہوٹل میں ایک شاندار ڈنر کا اہتمام کیا اور مجھے چیف گیسٹ بنایا۔ میں نے ہمارے ایٹمی سفر پر روشنی ڈالی اور انجینئرز کو بتلایا کہ کس طرح اہم ملکی پروجیکٹس پر کام کیا اور کرنا چاہئے۔ میں نے جب ان کو بتایا کہ میں نے ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ دونوں اعلیٰ تعلیمی اداروں سےکئے ہیں اور یہ دونوں ڈگریاں انجینئرنگ میں ہیں یعنی M.Sc Tech اور Dr. Eng تو تمام انجینئرز بے حد خوش ہوئے کہ ان کا ایک ہم پیشہ اتنا اہم کام کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ میں نے ان کو صاف صاف بتلا دیا کہ اگر میں انجینئر نہ ہوتا اور انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کی ہوتی تو یہ پروجیکٹ کبھی بھی کامیاب نہ ہوتا اور یہ حقیقت بھی ہے۔
دیکھئے دنیا میں کوئی اعلیٰ کام، اعلیٰ ریسرچ میٹالرجی میں مہارت کے بغیر تکمیل نہیں پا سکتی۔ کمپیوٹرز، روبوٹس، سپرسانک ہوائی جہاز، خلائی شٹلز، سٹیلائٹس، خلائی کمیونیکیشن، نیوکلیرانرجی وغیرہ کی تیاری میں میٹالرجی کا اہم رول ہے۔ تمام ایم (M) کے استعمال میں یعنی افرادی قوت (Manpower)، میٹریلز(Materials)، مشینز(Machines)، طریقہ تیاری(Methods)، اور رقوم (Money) میں میٹیریلز ان کی تیاری اور ان کا استعمال ہی بہت اہم بلکہ اہم ترین فیکٹر ہے۔ بغیر اس کے آپ کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
میں خودبھی انجینئر ہوں اور میں نے ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ دونوں اعلیٰ یونیورسٹیوں سے کئے ہیں۔ مگر سب سے پہلے میں سر جارج تھامسن (نوبیل انعام یافتہ) کا ایک قول بتانا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا تھا کہ، ’’ہم نے کچھ عرصہ سے اپنی تہذیب کو ان دھاتوں سے منسوب کیا ہے جو عوام اس وقت استعمال کررہے تھے مثلاً پتھروں کا زمانہ، بُرونز (Bronze) کا زمانہ، لوہے کا زمانہ وغیرہ وغیرہ‘‘۔ کسی بھی تہذیب (زمانہ) کی ترقی یا جہالت کا انحصار اس تہذیب کے پاس جو دھاتیں ہوتی ہیں ان کےصحیح یا غلط استعمال یا کوئی استعمال نا کرنے پر منحصر ہوتا ہے۔ موجودہ دور لوہے اور نئی طاقتور دھاتوں کا ہے۔
0 Comments