’’کاش میری رو ح کو حکماء کی موت نصیب ہو۔‘‘ اللہ جانے مرنے کے بعد اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔ وہ جو روح، عقل، آخرت، مذہب اور دیگر مسائل پر تمام علماء سے اختلاف رکھتا تھا، اس کی اپنی ’’روح‘‘ پر کیا بیتی۔ اس کی ’’عقل‘‘ کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ لیکن ابن رشد کی یہ خواہش کہ کاش میری روح کو حکماء کی موت نصیب ہو، بلاشک و شبہ پوری ہوئی۔ اس کی تصانیف چھ سو برس تک یورپ کی درس گاہوں میں شامل نصاب رہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس سے اختلاف بھی کیا گیا لیکن راجر بیکن اسے ارسطو اور ابن سینا کے بعد کائنات کا تیسرا بڑا فلسفی قرار دیتا ہے۔ اب اندلس والوں کو کیا کہیں!! اندلس کہ جسے بجا طور پر یورپ کا استاد کہا جا سکتا ہے۔ اس کا اور اس کے لوگوں کا استاد ابن رشد کے ساتھ سلوک، بالخصوص اس کی زندگی کے آخری دنوں میں، کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوا۔ یہ بجا ہے کہ جس زمانے میں ابن رشد پیدا ہوا، وہ اندلس کی عملی ترقی کے لحاظ سے نہایت شاندار ہے۔
اندلس میں بنوامیہ کے زوال سے موحدین کے زوال تک دو سال کی مدت بنتی ہے اور یہ زمانہ اسلامی تاریخ میں بہت اہم ہے۔ لیکن دراصل یہ اندلس میں مسلمانوں کے عروج کا آخری دور بھی ہے کہ ایک عظیم الشان تہذیب نے زوال کے سفر پر پہلا قدم رکھ دیا تھا۔ 1030ء میں اندلس جب دولت بنوامیہ کے زوال کے بعد چھوٹی چھوٹی مسلمان ریاستوں میں بٹ گیا، جو آپس ہی میں دست و گریبان تھیں تو شمال کی عیسائی ریاستوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ قشتالہ کی حکومت نے، جو عیسائی ریاستوں میں سب سے زیادہ طاقتور تھی، آہستہ آہستہ مسلمانوں کے شہروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ طلیطلہ کو زیر نگیں کر لیا۔ اشبیلہ کے بادشاہ متعمد کو خراج دینے پر مجبور کر دیا اور قرطبہ کو حریصانہ نظروں سے دیکھنے لگی۔ ان حالات میں مسلمانوں نے سمندر پار سے یوسف بن تاشفین کو پکارا جو مراکش کی طاقتور سلطنت کا فرماں روا تھا۔ وہ آیا۔ اس نے عیسائی بادشاہ الفانسو کو زلاقہ کے میدان میں شکست فاش دی اور چھوٹی چھوٹی مسلمان ریاستوں کو دوبارہ اکٹھا کر کے اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ جلد ہی ان لوگوں نے طاقت پکڑ لی اور مرابطین کا تختہ الٹ دیا۔
تاریخ کے یہ وہ ماہ و سال ہیں جو ابن رشد کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ قاضی ابوالولید محمد بن احمد بن محمد ابن رشد 1114ء میں بمقام قرطبہ پیدا ہوا۔ ریناں اس کے جن سوانح نگاروں کو زیادہ مستند مانتا ہے، وہ ابن الابار اور الانصاری ہیں۔ ان کے نزدیک ابن رشد کی یہی تاریخ پیدائش صحیح ہے۔ ابن رشد کا خاندان اندلس کا معروف مذہبی و سیاسی خاندان تھا اور فقہائے مالکیہ میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ اس کا دادا اور باپ دونوں اپنے اپنے وقت پر قرطبہ کے قاضی رہے۔ تاریخ اس کے کارناموں کو فلسفہ، طب اور فقہ میں یکساں طور پر تسلیم کرتی ہے۔ طب کے میدان میں اس نے ابن زہر کے ساتھ مل کر کام کیا۔ دونوں شاہی طبیب رہے اور ان کے درمیان گہرے خاندانی دوستانہ مراسم بھی تھے۔ مشہور صوفی بزرگ ابن عربی سے بھی اس کے تعلقات تھے اور یہ ابن طفیل تھا جس کے نہ صرف خیالات سے وہ مستفید ہوا بلکہ شاہی دربار تک اس کی رسائی بھی ابن طفیل کی بدولت ممکن ہوئی۔
ابن طفیل کی ترغیب پر ہی ابن رشد نے ارسطو کے رسالوں پر شرحیں لکھنا شروع کیں پھر وہ وقت بھی آیا کہ پیرس یونیورسٹی اپنے فارغ التحصیل طلبہ سے یہ حلف لیتی تھی کہ وہ ارسطو کی صرف وہی شرحیں پڑھائیں گے جو ابن رشد کی لکھی ہوئی ہیں۔ 1188ء میں یوسف بن عبدالمومن نے اسے ابن طفیل کی جگہ طبیب اول مقرر کر دیا۔ اس کے بعد قرطبہ کے قاضی القضاۃ کا عہدہ عطا کیا جس پر اس کے با پ اور دادا دونوں فائز رہ چکے تھے۔ منصور بن یوسف بن عبدالمومن (یعقوب المنصور ) کے دربار میں اس کا اثرورسوخ پہلے سے کہیں زیادہ تھا۔ منصور اسے اپنی مسند خاص پر بٹھاتا تھا اور علمی معاملات پر گفتگو کرتا تھا۔ ابن رشد بے تکلفی میں بارہا اسے ’’اسمع اخی‘‘ کہہ کر خطاب کر جاتا تھا۔
ظفر سپل
(کتاب’’مسلم فلسفے کا تاریخی ارتقاء‘‘سے منقبس)
اندلس میں بنوامیہ کے زوال سے موحدین کے زوال تک دو سال کی مدت بنتی ہے اور یہ زمانہ اسلامی تاریخ میں بہت اہم ہے۔ لیکن دراصل یہ اندلس میں مسلمانوں کے عروج کا آخری دور بھی ہے کہ ایک عظیم الشان تہذیب نے زوال کے سفر پر پہلا قدم رکھ دیا تھا۔ 1030ء میں اندلس جب دولت بنوامیہ کے زوال کے بعد چھوٹی چھوٹی مسلمان ریاستوں میں بٹ گیا، جو آپس ہی میں دست و گریبان تھیں تو شمال کی عیسائی ریاستوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ قشتالہ کی حکومت نے، جو عیسائی ریاستوں میں سب سے زیادہ طاقتور تھی، آہستہ آہستہ مسلمانوں کے شہروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ طلیطلہ کو زیر نگیں کر لیا۔ اشبیلہ کے بادشاہ متعمد کو خراج دینے پر مجبور کر دیا اور قرطبہ کو حریصانہ نظروں سے دیکھنے لگی۔ ان حالات میں مسلمانوں نے سمندر پار سے یوسف بن تاشفین کو پکارا جو مراکش کی طاقتور سلطنت کا فرماں روا تھا۔ وہ آیا۔ اس نے عیسائی بادشاہ الفانسو کو زلاقہ کے میدان میں شکست فاش دی اور چھوٹی چھوٹی مسلمان ریاستوں کو دوبارہ اکٹھا کر کے اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ جلد ہی ان لوگوں نے طاقت پکڑ لی اور مرابطین کا تختہ الٹ دیا۔
تاریخ کے یہ وہ ماہ و سال ہیں جو ابن رشد کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ قاضی ابوالولید محمد بن احمد بن محمد ابن رشد 1114ء میں بمقام قرطبہ پیدا ہوا۔ ریناں اس کے جن سوانح نگاروں کو زیادہ مستند مانتا ہے، وہ ابن الابار اور الانصاری ہیں۔ ان کے نزدیک ابن رشد کی یہی تاریخ پیدائش صحیح ہے۔ ابن رشد کا خاندان اندلس کا معروف مذہبی و سیاسی خاندان تھا اور فقہائے مالکیہ میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ اس کا دادا اور باپ دونوں اپنے اپنے وقت پر قرطبہ کے قاضی رہے۔ تاریخ اس کے کارناموں کو فلسفہ، طب اور فقہ میں یکساں طور پر تسلیم کرتی ہے۔ طب کے میدان میں اس نے ابن زہر کے ساتھ مل کر کام کیا۔ دونوں شاہی طبیب رہے اور ان کے درمیان گہرے خاندانی دوستانہ مراسم بھی تھے۔ مشہور صوفی بزرگ ابن عربی سے بھی اس کے تعلقات تھے اور یہ ابن طفیل تھا جس کے نہ صرف خیالات سے وہ مستفید ہوا بلکہ شاہی دربار تک اس کی رسائی بھی ابن طفیل کی بدولت ممکن ہوئی۔
ابن طفیل کی ترغیب پر ہی ابن رشد نے ارسطو کے رسالوں پر شرحیں لکھنا شروع کیں پھر وہ وقت بھی آیا کہ پیرس یونیورسٹی اپنے فارغ التحصیل طلبہ سے یہ حلف لیتی تھی کہ وہ ارسطو کی صرف وہی شرحیں پڑھائیں گے جو ابن رشد کی لکھی ہوئی ہیں۔ 1188ء میں یوسف بن عبدالمومن نے اسے ابن طفیل کی جگہ طبیب اول مقرر کر دیا۔ اس کے بعد قرطبہ کے قاضی القضاۃ کا عہدہ عطا کیا جس پر اس کے با پ اور دادا دونوں فائز رہ چکے تھے۔ منصور بن یوسف بن عبدالمومن (یعقوب المنصور ) کے دربار میں اس کا اثرورسوخ پہلے سے کہیں زیادہ تھا۔ منصور اسے اپنی مسند خاص پر بٹھاتا تھا اور علمی معاملات پر گفتگو کرتا تھا۔ ابن رشد بے تکلفی میں بارہا اسے ’’اسمع اخی‘‘ کہہ کر خطاب کر جاتا تھا۔
ظفر سپل
(کتاب’’مسلم فلسفے کا تاریخی ارتقاء‘‘سے منقبس)
0 Comments