Science

6/recent/ticker-posts

سائنسی ترقی میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمات

کچھ روز قبل، میں نے ایک تقریری مقابلے میں حصہ لیا، یہ کوئی ایسا ویسا تقریری مقابلہ نہیں تھا، کراچی کی تاریخ کا پہلا پارلیمانی طرز کا تقریری مقابلہ تھا جس میں تمام پاکستان سے طلبا نے شرکت کی تھی۔ پی اے ایف کیٹ میں منعقد اس تین روزہ مقابلے میں شریک تمام دستوں کو چار موضوعات پر بحث کرنا پڑی، 4 دستے سیمی فائنل اور 2 دستے فائنل میں پہنچے۔ خوشی کی بات یہ تھی کے روایتی موضوعات کا یہاں کوئی عمل دخل نہیں تھا، لفاظی ڈھیر ہوگئی تھی اور فقط منطق و دلائل کا راج تھا۔ میں بھی شرکا میں شامل تھا، فائنل میں بمع دستے کے پہنچا ۔۔۔۔۔ پر تمام منصفین کو قائل نہ کرسکا اور ثانوی مسند پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
خیر مباحثے میں جو سوالات یا قرارداد پیش کی گئیں وہ تو ہم نے کسی نہ کسی طرح نمٹا دیں۔ لیکن مباحثے کو دوسرے روز ایاز میمن موتی والا ہم سب کو صحیح ٹینشن دے گئے تھے۔ وہ سوال اٹھائے جا رہے تھے اور ہم جناب پیر زادہ قاسم کی یہ نظم گنگنائے جا رہے تھے کہ،

ابھی تو آپ ہیں اور آپ کا زورِ خطابت ہے
بہت الفاظ ہیں نادر، بہت بے ساختہ جملے

ابھی تو لب کشائی آپ کی اپنی گواہی ہے
ابھی تو آپ ہیں ظلِ الٰہی، آپ ہی کی بادشاہی ہے

ابھی تو علم و حکمت، لفظ و گوہر آپ ہی کے ہیں
ابھی سب فیصلے، سب مُہر و محور آپ ہی کے ہیں

ابھی سب زر، جواہر، مال و دولت آپ ہی کے ہیں
ابھی سب شہرت و اسبابِ شہرت آپ ہی کے ہیں

ابھی کیا ہے، ابھی تو آپ کا جبروت لہجے میں عیاں ہوگا
ابھی تو آپ ہی کے نطق و لب سے آپ کا قصہ بیاں ہوگا

ابھی تو محترم بس آپ ہیں، خود اپنی نظروں میں
معظم، محتشم القاب ہیں خود اپنی نظروں میں

ابھی تو گونجتے اونچے سُروں میں آپ ہی ہیں نغمہ خواں اپنے
سبھی لطف و کرم گھر کے، مکان و لا مکاں اپنے

ابھی تو آپ ہی کہتے ہیں کتنا خوب کہتے ہیں
جو دل میں آئے کہتے ہیں، جو ہو مطلوب کہتے ہیں

مگر جب آپ کی سیرت پہ ساری گفتگو ہولے
تو یہ بھی یاد رکھیے گا ابھی تک ہم نہیں بولے
تو بھئی آج ہم بول رہے ہیں! آپ نے پوچھا تھا آج تک ہم نے کیا ایجاد کیا؟ اور آپ کا دوسرا سوال تھا کہ اس سے پاکستان کا نام کیسے روشن ہوا؟ ہم سے آپ کی مراد ہم پاکستانیوں کی بھی ہوسکتی ہے، ہم اہلیانِ برصغیر کی بھی ہوسکتی ہے، ہم مسلمانوں کی بھی ہوسکتی اور اس ایوان میں موجود کم و بیش 50 نوجوان سخنوران و مقررین کی بھی ہوسکتی ہے۔ پاکستان کا نام کیسے روشن ہوا سے آپ کی مراد یہی ہوگی کہ دنیا نے اس فعل، ایجاد یا کارنامے کی پذیرائی کب، کس طرح اور کتنی کی ہو، اس پر کتنے تبصرے اور تحاریر رقم کی گئی ہوں؟

میں جواب دیئے دیتا ہوں، اگر انعامی اسکیم ابھی چل رہی ہو تو خاکسار خوشی سے نہال ہوجائے گا! مسلمانوں نے تو بہت کچھ ایجاد کیا ہے، عموماً زیادہ تر ایجادات مسلمانوں کے سنہری دور میں ہوئی تھیں، انکا کریڈٹ لینا موزوں نہ ہوگا۔ اور نہ ہی ان سے پاکستان کا نام روشن ہوا، البتہ ان ایجادات سے وہ علاقے ضرور مشہور ہوئے جہاں سے ان مسلمان ماہرین و فلسفیوں کا تعلق رہا تھا، چند ایک کا ذکر کئے دیتا ہوں۔ آج سے تقریباً ایک ہزار سولہ سال قبل قدیم قرطبہ المعروف ہسپانیہ میں ابو القاسم خلف ابن العباس الزہواری انگریزی میں المعروف Albucasis نے جدید سرجری ایجاد کی تھی۔ کافی یا قہوہ بھی مسلمانوں کی ایجاد ہے، نویں صدی عیسوی میں یمن میں کوکوا کی پھلیوں سے کافی یا قہوہ بنایا گیا تھا، آج پورا یورپ و امریکا، کافی پیئے بغیر کام کر نہیں سکتا ہے۔ کافی مسلم صوفیا کا پسندیدہ مشروب تھا، اسے پی کر صوفیا کرام رات بھر عبادت کیا کرتے تھے۔ 859 عیسوی میں دو مسلم شہزادیوں (فاطمة بنت محمد الفهرية القرشية اور ان کی بہن مریم) نے مراکش کے شہر فاس میں دنیا کی پہلی ڈگری جاری کرنے والی جامعہ، جامعة القرويين قائم کی تھی۔ جو آج بھی الحمدللہ قائم و دائم ہے! الجبرا بھی مسلم سائنسدان ابو عبد الله محمد بن موسى الخوارزمی اور حکیم ابوالفتح عمر خیال بن ابراہیم المعروف عمر خیام کی ایجاد ہے۔ الخوارزمی کا تعلق ایران کے شہر خوارزم سے تھا لفظ الگورتھم Algorithm بذات خود آپ کے نام سے اخذ کیا گیا ہے، اور عمر خیام کا تعلق ایران کے شہر نیشاپور سے تھا۔ کارنامے اور بھی ہیں، لیکن جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ان کا کریڈٹ لینا تو صحیح نہیں ہوگا۔

برصغیر میں بھی بہت سی ایجادات ہوئی ہیں، ان میں اولین ایجاد ہے جمہوریت! مغربی تاریخ دان کہتے ہیں کہ قدیم ایتھنز کی شہری حکومتیں ہی جمہوریت کی اصل شکل ہیں۔ لیکن ان سے بھی پہلے اس برصغیر میں گاؤں کی سطح پر اسمبلیاں موجود تھیں۔ ایک اور مشہور ایجاد تو سیوریج سسٹم ہے جو موئن جو دڑو کی تہذیب کا شاہکار ہے۔ اس کا کریڈٹ لینا بھی صحیح نہ ہوگا کیونکہ اب تو کراچی اور ملک کے دیگر شہروں کا سیوریج سسٹم ناکارہ ہے۔

اب پاکستان کی بات کرلیتے ہیں، اس کا کریڈٹ لینا تو میں اپنا حق سمجھتا ہوں۔ پہلی ایجاد ہے گرینڈ یونیفیکیشن تھیوری ہے جو کہ ڈاکٹر عبدالسلام اور ان دیگر ساتھیوں کی دریافت تھی، اس دریافت پر ان کو طبیعات کا نوبل انعام بھی ملا تھا۔ دوسری ایجاد ہے اجملائین Ajmalinine۔ یہ کارنامہ جناب سلیم الزماں صدیقی صاحب نے سنہ 1931 میں انجام دیا تھا۔ اجملائین یہ ایک مرکب ہے جس کا استعمال دوائیوں میں ہوتا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ دریافت تو پاکستان بننے سے پہلے کی ہے؟ تو جواب دیئے دیتا ہوں، اس مرکب کا نام جناب حکیم اجمل کے نام پر رکھا گیا تھا، حکیم اجمل تحریکِ آزادی کے ایک عظیم رہنما تھے اور آج بھی ملک بھر میں دواخانہ اجمل کے نام سے آپ کا نام روشن و جاویداں ہے۔ سلیم الزماں صدیقی صاحب نے ایک دریافت پر بس نہیں کی تھی، آپ نے بعد میں Ajmalicine, Isoajmaline, Neoajmaline Serpentine and Serpentinine بھی دریافت کئے اور ان کا استعمال آج بھی امراض قلب اور ذہنی امراض کے علاج میں ہوتا ہے۔

تیسری ایجاد ہے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس ایچ ڈی آئی۔ تمام دنیا میں مروج انسانی ترقی پانے کا سب سے جامع اور مفصل اعشاریہ ہے۔ اس کے خالق ایک پاکستانی ماہر معاشیات جناب محبوب الحق ہیں۔ یہ ڈاکٹر محبوب الحق ہی تھے جنہوں نے پہلی بار جملہ ’’پاکستان میں 22 خاندانوں کی اجارہ داری ہے‘‘ استعمال کیا تھا، بعد میں یہ مصرعہ ایک ضرب المثل اور سیاسی نعرہ بن گیا تھا۔ ڈاکٹر محبوب الحق پاکستان کے فنانس منسٹر بھی رہے تھے اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی سے منسلک بھی رہے تھے۔ پاکستان کے لئے بنایا ہوا آپ ہی کا پانچ سالہ ترقیاتی پلان جنوبی کوریا نے استعمال کیا تھا اور ایشیائی ٹائیگر بن گیا تھا۔ یہ ہیں کمال کی ایجادات۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ 70 سال میں فقط تین ایجادات یا کارنامے؟

بھئی یہ تو میری ذاتی اور ناقص رائے ہے! باقی 50 افراد بھی تھے اس ایوان میں اگر باقی سب بھی دماغ لڑائیں تو عین ممکن ہے کہ 150 ایجادات گن لیں! اب بہتر لگ رہا ہے، اس عمل کو کراؤڈ سورسنگ کہتے ہیں۔ ویسے میں چاہوں تو قول محال یعنی کہ Paradox جس کا استعمال میرے دوست جاوید میرانی نے بھی کیا تھا کا استعمال کرتے ہوئے لاکھوں پاکستانی ایجادات گنوا سکتا ہوں اور مغالطہ ریاضی یعنی کہ Mathematical Fallacy جس کا استعمال ہمیں شبر ویرانی نے سکھایا تھا کا اطلاق کرتے ہوئے اپنی بات ثابت کرسکتا ہوں، لیکن مزہ نہیں آئے گا!

میں آپ کو ایک سولڈ 24 قیراطی ثبوت دیتا ہوں! آپ کے خطاب کا اہم ترین لفظ تھا ’’ایجاد‘‘ پرانے زمانے میں ایجادات ایجاد ہوتے ہی عام ہوجایا کرتی تھیں، پرانے سے میری مراد قدیم ادوار کی ہے۔ اگر اس دور میں فکری ملکیت کا تصور موجود ہوتا اور موجدین کو ان کی ایجاد یا تخلیق کا معاوضہ ملتا تو آج دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا، میں دوبارہ مسلمانوں کے دورِ عظمت کی مثال دوں گا، مسلم دانشوروں، فلسفیوں اور مفکروں نے آٹھویں سے تیرہویں صدی کے درمیان ان گنت ایجادات کیں اور یورپی ان کے تراجم کرتے چلے گئے، کوئی پیسہ پائی نہ لگا، محنت بہت لگی ہوگی، لیکن ترجمہ کرنا بہرحال ایجاد کرنے سے آسان ہے۔ مغرب میں علم و ادب کا عروج کم و بیش تیرہویں صدی سے شروع ہوا اور سولہویں صدی تک جاری رہا، اس دور کو رنے ساں کہا جاتا ہے، اور سولہویں صدی میں ہی فکری ملکیت کے تحفظ کا رجحان زور پکڑنے لگا تھا۔

سنہ 1624 میں رائج ہونے والا Statue of Monopolies اور سنہ 1709 میں رائج ہونے والا Statue of Anne کاپی رائٹ اور پیٹنٹ لا کی ابتدا کا درجہ رکھتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر intellectual property وجود میں آئی۔ اس کے بعد سنہ 1883 میں Paris Convention رائج ہوا، سنہ 1884 میں Berne Convention کا اطلاق ہوا اور 1891 میں Madrid Agreement طے پایا۔ اس وقت مسلمان کیا کر رہے تھے؟ ہم اس وقت انگریزوں کے ہاتھوں پٹ رہے تھے! لٹ رہے تھے اور تذلیل کا شکار ہو رہے تھے، وجہ؟ یورپ میں جمہوریت رائج ہوچکی تھی، اور مشرق ظل الہیٰ یعنی کہ بادشاہت کے زیرعتاب تھا، مندرجہ بالا قوانین مقننہ و پارلیمان میں منظور ہوئے تھے اس کے برعکس بادشاہوں کے درباروں میں ایسا کوئی سین نہیں تھا۔

یہ پکاؤ کہانی سنانے کا مقصد یہ تھا کہ ہر وہ چیز جو انسان اپنی سوچ سے تخلیق کرتا ہے، مشین، تصنیف، نغمہ، تصویر، حتیٰ کہ کپڑوں کے ڈیزائن تک یہ سب اپنے موجد کی ملکیت ہوتے ہیں اور قانون انہی ان ایجادات و افکار کے جملہ حقوق محفوظ رکھنے کا حق دیتا ہے۔ پھر انہی ایجادات کی لائسنسنگ کے ذریعے موجد کماتے ہیں۔ ایک اور بات ہر موجد اسٹیو جابز اور بل گیٹس نہیں ہوتا ہے یعنی کہ مشہور، مقبول، کامیاب و کامران۔ اس کی سب سے بڑی مثال نکولا ٹیسلا کی ہے جس کا سب سے بڑا دشمن ایڈیسن تھا! جی ہاں ایڈیسن ایک موجد کم اور ایک ساہوکار زیادہ تھا، وہ دراصل دوسرے موجدین کی ایجادات کو اپنے نام سے رجسٹر کرواتا تھا اور پیسہ کماتا تھا۔

پاکستانی ہر سال بہت سی کتابیں لکھتے ہیں، یہ سب ان کی Intellectual Property یعنی کہ فکری ملکیت کہلاتی ہیں اور یہ تصانیف انقلاب بپا کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر منٹو، جالب، احمد فراز، ابنِ صفی اور نسیم حجازی ان مصنفین کی تصانیف ہی ان کی ایجادات ہیں۔ ویسے کبھی کسی سافٹ ویئر ہاؤس کا چکر لگا لیجیئے گا، آپ کو سینکڑوں پاکستانی نوجوان موبائل اپلیکیشنز ایجاد کرتے ہوئے نظر آئیں گے، لیکن وہ ان ایجادات کو اپنا نام نہیں دے پاتے ہیں بلکہ فرنگیوں کو بیچ دیتے ہیں۔ یہ تحریر بھی میری فکری ملکیت ہے اور میں اس کو بغیر کسی معاوضے کے ناشر کو دے رہا ہوں تاکہ میرا پیغام عام ہوسکے، مجھ جیسے کئی افراد روزانہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تصانیف ایجاد کر رہے ہیں اور انٹرنیٹ پر دنیا کے بھلے کے لئے مفت شائع کر رہے ہیں۔

ایجاد فقط وہ نہیں ہوتی جسے چھوا جاسکے، جس مقابلے میں آپ تشریف لائے تھے وہاں کم و بیش 180 تقاریر کی گئی تھیں اور ہر تقریر خطیب کی ایجاد تھی۔ آپ نے سولر پینلز کا حوالہ بھی دیا تھا کہ ان پینلز کو درآمد نہ کیا جائے بلکہ اپنے ملک میں بنایا جائے تو بھائی صاحب غور سے سنیئے! پاکستان نہ پلانٹ لگانے سے ترقی کرسکتا ہے اور نہ انڈسٹریاں لگانے سے، گلوبلائیزیشن کا دور ہے ماس پروڈکشن سستی پڑتی ہے برآمدات نہیں دراصل ڈیوٹی مہنگی پڑتی ہے۔
ہمارے تعلیمی ادارے ہمیں موجد، مفکر اور فلسفی بننے کی ترغیب نہیں دیتے ہیں۔ ملازم بننے کی ترغیب و تعلیم دیتے ہیں۔ آپ سچ میں فکرمند ہیں تو Knowledge Based Economy کو فروغ دیں۔ میں مخاطب آپ سے ہوں لیکن میرا پیغام ہزاروں افراد تک ضرور پہنچے گا۔ آخری بات! اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں نے آپ کے سوالات کے جوابات دے دیئے ہیں تو 20 لاکھ دے دیں! ویسے نہ  بھی دیں تو بھی کوئی بات نہیں، آپ نے سوچنے اور لکھنے کے لئے سوال مہیا کردیئے یہی کافی ہے۔

عندیل علی

Post a Comment

0 Comments