Science

6/recent/ticker-posts

شیخ الرئیس بو علی سینا

یہ حقیقت ہے کہ شیخ الرئیس ابو علی حسین بن عبداللہ بن سینا محض ایک فرد کا نام نہیں ہے۔ علامہ اقبال اپنی کتاب ’’ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ایران کے ابتدائی مفکرین میں صرف ابن سینا ہی ایسا شخص ہے جس نے علیحدہ نظام فکر تعمیر کرنے کی کوشش کی۔‘‘

شیخ کے والد عبداللہ بلخ کے رہنے والے تھے۔ یہ سامانیوں کا عہد تھا۔ نوح بن منصور سامانی نے اسے بخارا کے اہم شہر خریتان کا ولی مقرر کیا۔ اسی شہر کے نزدیک ایک چھوٹا سا شہر افشنا نامی بھی ہے۔ شیخ کی والدہ صاحبہ اسی شہر کی رہنے والی تھیں۔ ان کا نام ستارہ ہے۔ شیخ الرئیس بھی اسی شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کے سنہ پیدائش میں اختلاف ہے، لیکن زیادہ تر مورخین 370 ہجری 980ء پر متفق ہیں۔ شیخ کی ولادت کے چند سال بعد یہ چھوٹا سا خاندان بخارا منتقل ہو گیا۔اس کی تعلیم کا یہیں آغاز ہوا۔ دس برس کی عمر میں اس نے قرآن مجید حفظ کر لیا تھا اور علوم شریعہ کی مبادیات اور علم نحو کے ضروری حصے سے بھی واقفیت حاصل کر لی تھی۔

اس نے ریاضی کی تعلیم ایک سبزی فروش محمود مساح سے حاصل کی اور فقہ کی تعلیم اسماعیل زاہد سے۔ شیخ کے والد عبداللہ نے اپنے ذہین بچے کی مزید تعلیم و تربیت کی غرض سے عبداللہ الناتلی کو مستقل طور پر اپنے ہاں ٹھہرا لیا جس سے اس نے منطق اور اقلیدس کے ابتدائی اسباق لیے۔ مگر جلد ہی ہونہار شاگرد نے اپنے استاد پر فوقیت حاصل کر لی۔ طبیعیات، ماوراء الطبیعیات اور الٰہیات کی کتابیں اس نے ازخود پڑھیں۔ پھر وہ فلسفے کی طرف متوجہ ہوا تو راتوں کو وہ کبھی پوری نیند سے لطف اندوز نہیں ہوا اور دن کو بھی فلسفے پر غور و غوض کے سوا اس کی کوئی اور مشغولیت نہیں تھی۔ کسی مسئلے میں جب وہ اٹک جاتا تو وضو کرکے جامع مسجد چلا جاتا۔ نماز پڑھتا اور اللہ سے دعا کرتا۔

یہاں تک کہ مسئلے کی پیچیدگی دور ہو جاتی۔ اس نے ارسطو کی ماوراء الطبیعیات کا مطالعہ کیا۔ چالیس بار پڑھنے پر کتاب تو اس کو ازبر ہو گئی لیکن اس کے مطالب اس پر نہ کھلے۔ اتفاقیہ طور پر ایک دن بازار کتب فروشاں میں اس نے ایک شخص سے فارابی کی کتاب بے دلی سے اور سستے داموں خریدی۔ مگر اسی کتاب کے مطالعے نے نہ صر ف مابعد الطبیعیات کے مفاہیم کی طرف اس کی رہبری کی بلکہ اس کے ذہن کو پختہ تر کر دیا اور فلسفے کی ادق راہیں اس پر کھول دیں… کیا فارابی کو ابن سینا کا استاد کہنا چاہیے؟ شیخ طب کی طرف مائل ہوا تو پھر اس کی کتابیں پڑھنا شروع کر دیں۔ وہ علم طب میں بھی آپ اپنا استاد ہے۔

اگرچہ ابن ابی اصیبعہ نے اپنی کتاب ’’طبقات الاطباء‘‘ میں ابو سہل عیسیٰ بن یحییٰ مسیحی جرجانی کا نام اس کے استاد کی حیثیت سے درج کیا ہے۔ ابھی ابن سینا سولہ سترہ سال کا ہی ہوا تھا کہ اس کی طبی قابلیت کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیل گئی۔ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے شیخ نے تمام مروجہ علوم سے فراغت حاصل کر لی تھی۔ غالباً اسی وجہ سے ڈی بوئر اس کے متعلق لکھتا ہے’’وہ جسمانی اور ذہنی حیثیت سے قبل از وقت بالغ ہوگیا تھا۔‘‘  

Post a Comment

0 Comments