Science

6/recent/ticker-posts

سائنس، سائنس، سائنس

زمانہ قدیم سے انسان زمین میں اور زمین پر جو بھی وسائل ہیں اُن کو اپنے آرام و مفاد کے لئے استعمال کررہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کا دماغ تیز کام کرنے لگا جبکہ اس کی ضروریات بھی بڑھتی گئیں۔ ؎ وہ جستجو میں لگ گیا کہ مزید وسائل اور آرام کی چیزیں حاصل کرے۔ شروع شروع میں ترقی کی رفتار بہت سست تھی مثلاً پتھر کے اوزار، پھر دھاتوں کے اوزار اور پھر دھاتوں کے برتن وغیرہ بنانا شروع کر دیے۔ پچھلے دو سو سال میں، خاص طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا نے، بالخصوص مغربی دنیا نے بےحد ترقی کی ہے۔ تمام ترقی کے کام مغربی ممالک اور جاپان، چین اور ترکی وغیرہ میں ہو رہے ہیں جبکہ ہم ایک زرعی ملک ہو کر اور بہترین نہری نظام کے ہوتے ہوئے، گندم، چینی، ٹماٹر، پیاز، لہسن، ادرک، سیب، انگور، آڑو وغیرہ بڑی رقم خرچ کر کے ہر سال منگواتے ہیں۔

دوسرے ممالک میں حکومت کی تبدیلی عموماً عوام کی بہتری کے لئے ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں اُلٹا حال ہے۔ نئی حکومت بدانتظامی کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ڈالر 160 روپے سے اوپر، گھی، دالیں، چاول، گندم، مصالحہ جات سب کی قیمتیں آسمان سے ٹکرا رہی ہیں۔ نیب کا قانون مشرف نے بنایا تھا جب نواز شریف کی حکومت آئی تو بجائے اس کے کہ وہ زرداری سے مل کر اِس بدنام زمانہ سیاہ قانون کو ختم کر دیتے وہ اس وہم میں مگن رہے کہ اس کو استعمال کرکے PPP کو ختم کر دیں گے۔ دیکھئے بدنیتی ہمیشہ خود کو لوٹ کر تباہ کرتی ہے۔ دیکھئے میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ ہماری درآمدات، برآمدات سے تقریباً دگنی ہیں۔ میں نے حکمرانوں کو کئی بار مشورہ دیا کہ سائنسدانوں اور انجینئروں اور صنعتکاروں کو بلا کر ان دونوں کی فہرستیں ان کے سامنے رکھیں اور ان سے مشورہ لیں کہ کون کون سی اشیاء بجائے درآمد کرنے کے ملک میں بنائی جا سکتی ہیں۔ دیکھئے میری ٹیم نے ایک ناممکن کو کیا ممکن کر کے نہیں دکھایا۔ 

ہم نے ملک کو ناصرف ایٹم بم دیے بلکہ دوسرے اہم ہتھیار بنا کر کروڑوں ڈالر کی بچت کی۔ ہماری محبت اور حب الوطنی نے ملک کو ناقابلِ تسخیر دفاع فراہم کر دیا۔ آپ تھوڑی دیر کے لئے سوچئے کہ اگر میں ہالینڈ سے واپس نا آتا اور بھٹو صاحب یہ پروگرام شروع نا کراتے تو ہمارا حشر بدترین ہوتا۔ اگر بھٹو صاحب ایٹمی پروگرام اور فوج کو مضبوط نہ کرتے تو آج ہمارا ملک دنیا کا کمزور ترین ملک ہوتا۔ بہت بڑی اور بُری بات ہے کہ اس ملک کے حکمرانوں میں مردم شناسی کا فقدان ہے۔ جو ڈینگیں مارے، جھوٹ بولے، بڑے بڑے دعوے کرے وہ ہی اہم قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں خدا کے فضل و کرم سے لاتعداد ذہین، قابل اور محب وطن سائنسدان، انجینئر، صنعتکار موجود ہیں۔ لیکن جو نئی حکومت آتی ہے وہ باہر سے ہرفن مولا بُلا لیتی ہے،ان کو ملکی حالات کا قطعی علم نہیں ہوتا۔

اگر ہم اسی طرز کی حکمرانی و انتظام حکومت سے چلتے رہے تو پھر ہم بہت جلد کمزور ممالک کی صف میں شامل ہو جائیں گے۔ اس وقت حقیقت یہ ہے کہ کم از کم 75 فیصد لوگ سخت پریشان ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، امن و امان کے فقدان نے ہمیں تباہ کر دیا ہے۔ لوگوں کے پاس نا رقم ہے، نا بجلی، نا پانی۔ ایک اور خراب بات یہ ہے کہ ہم اپنے کلچر و ثقافت کو تباہ کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں لاتعداد مسلمان ریاستیں تھیں وہاں کا کلچر و ثقافت قابلِ دید اور قابلِ تحسین تھا، اب بعض ملک دشمن لوگوں نے غیرقانونی طریقے سے دولت حاصل کر لی ہے اور ہماری ثقافت و کلچر کا ستیاناس کر دیا ہے۔ ذرا آنکھیں کھولئے اور دیکھئے دنیا نے کتنی ترقی کر لی ہے۔ چین میں صرف ایک نسل نے ہی ملک کو صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ میرے دیکھتے دیکھتے ’’گجرانوالہ‘‘ پیرس، لندن بن گئے۔ انھوں نے تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی پر توجہ دی اور ہر سال 5 لاکھ طلباء و طالبات اعلیٰ تعلیم کے لئے غیر ممالک بھیجے۔ 

میں خود ہر سال 10 لڑکوں کو Ph.D کے لئے بھیجتا تھا اور اس طرح نیا، تازہ خون پروجیکٹ کو ملتا رہتا تھا۔ میں 15 سال جرمنی، ہالینڈ، بلجیم میں تعلیم حاصل کر کے اور ملازمت کر کے واپس آیا تھا اور میں نے یہاں آکر ڈینگیں نہیں ماری تھیں جو ٹیم میں نے بنائی تھی اس سے بہتر ٹیم اس ملک میں کبھی پیدا نا ہوئی تھی اور نا ہی اب قیامت تک ہو گی۔ یہاں دماغی بدنیتی کا رواج ہے جھوٹ بول بول کر لوگوں کو دھوکہ دے کر بڑے بن جائو حالانکہ کبھی ایک بال پوائنٹ، یا پنسل یا تلّی کا سفید تیل نہیں بنایا۔ میرا ہر ساتھی مغربی ممالک کے کسی سائنسدان اور انجینئر سے کم نا تھا ہم دوستوں، بھائیوں کی طرح مل کر کام کرتے تھے۔ مجھے کبھی کسی کو اوور ٹائم کام کروانے کی ضرورت نہیں پڑی، میرے سینئر لوگ لوگ اور میں خود ویک اینڈ پر صبح سے شام تک وہاں کام کرتے تھے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم ابھی گندم، چینی کے بلیک مارکیٹ میں لگے ہوئے ہیں۔ موجودہ نظام تعلیم بالکل بوسیدہ ہے اس کو بدلنے کے لئے میں نے کالم نہیں لکھے بلکہ صرف 2 سال میں غلام اسحق خان انسٹی ٹیوٹ بنا کر عملی طور پر بتایا کہ اچھے تعلیمی ادارے کیسے ہوتے ہیں۔

آج بھی یہ سب سے بہتر انسٹی ٹیوٹ ہے۔ اس کے علاوہ KU, PU, QAU, LUMS, NUST اور UETs اچھا کام کر رہے ہیں مگر وہاں اچھے تازہ تعلیم یافتہ اساتذہ کی کمی ہے۔ ہمیں تعلیمی اداروں میں باہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان سائنسدان اور انجینئرز کو لگانا چاہئے، IF کا عقل و فہم و صلاحیتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میرا تعلق کراچی سے ہے ۔ میں نے وہاں ایک نہایت اعلیٰ Institute of Biotechnology and Genetic Engineering بنا کر کراچی یونیورسٹی کو دیا ہے جو پروفیسر عابد اظہر کی اعلیٰ صلاحیتوں کی وجہ سے دنیا میں نام پیدا کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایک مینٹل ہیلتھ اسپتال Institute of Behavioral Sciences بنایا جو ہزاروں لوگوں کوعلاج کی سہولت دے رہا ہے، یہ میں نے DOW یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کو دے دیا ہے جس کے سربراہ نہایت اعلیٰ ماہر نفسیات برگیڈیر شعیب ہیں اور ان کو DOW یونیورسٹی کے VC پروفیسر ڈاکٹر سعید قریشی تمام سہولتیں دے رہے ہیں۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اعلیٰ یونیورسٹیز بنائیں اور نوجوان قابل لوگوں کو اس میں لگائیں، یہ جو ہری پور میں ابھی Hochschule بنایا ہے اور تعریفوں کے انبار لگائے ہیں۔ یہ یونیورسٹی کے برابر نہیں ہے یہ انگلستان کے HNC,HND کے برابر ہے یہاں آپ مشین چلانا اور ٹھیک کرنا سیکھتے ہیں یہاں ریسرچ نام کی کوئی چیز نہیں۔ یہ Ph.D کی ڈگری بھی نہیں دے سکتے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments