Science

6/recent/ticker-posts

گوگل کے کوانٹم کمپیوٹر نے دس ہزار سال کا حساب صرف تین منٹ میں لگا لیا

عالمی شہرت یافتہ تحقیقی جریدے ’’نیچر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع شدہ ایک ریسرچ پیپر میں گوگل سے وابستہ ماہرین کی ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اپنا ’’سائیکامور‘‘ کوانٹم کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے، صرف 200 سیکنڈ میں وہ حساب لگایا ہے جسے مکمل کرنے میں موجودہ طاقتور ترین سپر کمپیوٹر کو بھی 10 ہزار سال لگ جائیں گے۔ وضاحت کی جائے تو معلوم ہو گا کہ گوگل کا یہ کوانٹم کمپیوٹر، آج کے روایتی سپر کمپیوٹروں کے مقابلے میں تقریباً 1,576,800,000 گنا (ایک ارب 57 کروڑ اور 68 لاکھ گنا) زیادہ حسابی طاقت کا حامل ہے۔ یہ دعویٰ اتنا غیرمعمولی ہے کہ اس پر دنیا بھر میں کوانٹم کمپیوٹر پر کام کرنے والے اداروں میں کھلبلی مچ گئی ہے کیونکہ اب تک تیار کیا جانے والا کوئی بھی کوانٹم کمپیوٹر، اپنی کارکردگی اور رفتار میں عام روایتی کمپیوٹروں کے برابر بھی نہیں پہنچ پائے تھے۔

نیچر کو تحقیقی جرائد کی دنیا میں بلند ترین مقام حاصل ہے لیکن اگر آنے والے دنوں میں یہ دعویٰ غلط ثابت ہو گیا تو یقیناً اس سے ’’نیچر‘‘ کی ساکھ کو بدترین نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ امریکی جریدے فائنانشل ٹائمز نے ایسے ہی ایک مقالے کی نشاندہی گزشتہ ماہ ناسا کے ٹیکنیکل رپورٹس سرور پر بھی کی تھی جس میں گوگل کے ماہرین نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے کوانٹم کمپیوٹر نے روایتی سپر کمپیوٹروں کو ’’ایک بڑے مارجن‘‘ سے شکست دے دی ہے۔ البتہ، وہ مقالہ جلد ہی ہٹا دیا گیا اور اس کے بارے میں صرف چہ مگوئیاں رہ گئیں۔ تاہم، نیچر میں اشاعت کے بعد اب یہ دعویٰ اپنی تمام تر جزئیات سمیت سب کے سامنے آگیا ہے۔ تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ سائیکامور کوانٹم کمپیوٹر کی اصل طاقت ’’سائیکامور چپ‘‘ ہے جو 53 سپر کنڈکٹنگ کوانٹم بِٹس (کیو بٹس) کے ذریعے کام کرتی ہے، جو آپس میں مربوط ہیں۔ 

جریدے ’’ٹیکنالوجی ریویو‘‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں گوگل کے سی ای او سندر پچائی نے فخریہ انداز میں کہا کہ یہ کوانٹم کمپیوٹر اسی طرح ہے جیسے رائٹ برادران کا ایجاد کیا ہوا سب سے پہلا ہوائی جہاز کہ جو صرف چند سیکنڈ تک فضا میں رہا اور چند فٹ کی بلندی تک ہی پہنچ پایا۔ مطلب یہ کہ کوانٹم کمپیوٹرز پر کام تو صحیح معنوں میں اب شروع ہوا ہے۔ البتہ، کوانٹم کمپیوٹرز کے میدان میں گوگل کے سب سے بڑے حریف ’’آئی بی ایم‘‘ نے اپنے آفیشل بلاگ میں ردِعمل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس ریسرچ پیپر میں ڈسک اسٹوریج کی مد میں استعمال کی گئی وہ بے تحاشا جگہ اور آپٹیمائزیشن (کارکردگی بہتر بنانے کے) دوسرے طریقوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ اس لیے ’’گوگل کا یہ تجربہ سپر کنڈکٹر پر مبنی کوانٹم کمپیوٹنگ کے میدان میں پیش رفت کا ایک زبردست مظاہرہ ضرور ہے لیکن اسے اس بات کا ثبوت ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے کہ کوانٹم کمپیوٹروں کو کلاسیکی/ روایتی کمپیوٹروں پر ’بالادستی‘ حاصل ہو گئی ہے۔‘

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments