امام غزالی کا اصل نام ابو حمید غزالی ہے۔ امام غزالی 1054ء میں خراسان کے چھوٹے سے شہر طوس میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سوت کا کاروبار کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا نام غزالی پڑگیا۔غزالی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں سوت بنانے والا۔علامہ سمعیانی کے اس خیال سے کوئی بھی اتفاق نہیں کرتا کہ امام غزالی طوس کے ایک گاؤں غزال سے تعلق رکھتے تھے۔
امام غزالی کے عہد میں تعلیم عام تھی۔ کوئی فرد بھی تعلیم سے بے بہرہ نہ تھا حتیٰ کہ ایک عام آدمی بھی اعلیٰ تعلیم بآ سانی حاصل کرسکتا تھا اوراسے ہر طرح کی آسائشیں میسر تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے نامور مسلم مفکرین معاشرے کے عام طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ امام غزالی کے والد اَن پڑھ آدمی تھے۔ انہوں نے بستر مرگ پر اپنے قریبی دوست کو یہ تلقین کی کہ وہ میرے دو لڑکوں جن میں امام غزالی بھی شامل تھے اپنی نگرانی میں رکھے اورانہیں اچھی سے اچھی تعلیم دلوائے۔ انہوں نے اپنی تمام پونجی ان کے سپرد کردی تاکہ وہ ان کی کفالت کرسکے۔ کچھ عرصہ تک یہ دو لڑکے اچھی تعلیم حاصل کرتے رہے لیکن یہ پونجی جلد ہی ختم ہوگئی اوربادلِ نخواستہ انہیں ان لڑکوں کو کہنا پڑا کہ وہ اپنا روزگار تلاش کریں۔ اس دور میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی کوئی کمی نہ تھی۔
نجی تعلیمی اداروں میں اس عہد کے علماء فضلاء درس دیا کرتے تھے اور ان اداروں میں غریب گھرانوں کے بچے بھی بآسانی تعلیم حاصل کرسکتے تھے یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند نوجوانوں کو ہر طرح کی سہولتیں میسر تھیں۔ چنانچہ امام غزالی نے ان سہولتوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک مقامی استاد احمد بن محمد ازکانی سے حاصل کی ۔ ابتدائی تعلیم ختم کرنے کے بعد وہ جرجان کی طرف روانہ ہوئے جہاں پر انہوں نے امام صاحب کی تقریریں قلم بند کیں۔ اس زمانے میں ان تقریروں کو تعلیقات کانام دیا جاتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد جرجان سے پھر واطن واپس آئے۔ جب وطن واپس آرہے تھے تو راستے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے امام غزالی کی زندگی کی کایاپلٹ دی۔
جس قافلہ میں امام صاحب تھے اس پرڈاکوؤں نے حملہ کردیا اورامام صاحب کا سب سازوسامان چھین لیا یہاں تک کہ ان کے ضروری کاغذات بھی چھین لئے۔ امام صاحب نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا کہ مجھے سازوسامان کی ضرورت نہیں مگر میرے کاغذات واپس کر دو وہی میرا سرمایہ ہے۔ اس علم کو حاصل کرنے کی خاطر میں نے جنگلوں کی خاک چھانی اوراتنا طویل سفر اختیار کیا۔ ڈاکوؤں کا سردارہنس پڑا اورطنزیہ لہجے میں بولا تو پھر تم نے کیا خاک سیکھا جب کاغذ نہ رہے تو تم کورے رہ گئے یہ کہہ کر اس نے انہیں کاغذات واپس کردیئے۔ اس بات کاامام غزالی پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ طوس پہنچ کر ان کاغذات پر جو لکھا ہوا تھا وہ تمام ضائع کر ڈالا۔ امام صاحب تین سال تک وطن میں رہے اورپڑھے ہوئے علوم کودہرانے میں مصروف رہے۔
اس زمانے میں نیشاپور علوم و فنون کا مرکزتھا۔ امام صاحب نے جب بھی علمی تشنگی محسوس کی تو انہوں نے نیشا پور کی راہ لی اوروہاں اس دور کے سب سے بڑے عالم امام الحرمین ابو المعالی جویئی کے حلقہ درس میں شریک ہوگئے جو مدرسہ نظامیہ نیشاپور کے صدر مدرس تھے۔ یہاں امام صاحب کو علوم مروجہ کی تحصیل وتکمیل کا موقع ملا، فقۂ شافعی، علم کلام، مقدمات اورفلسفہ میں مہارت تامہ حاصل کی۔ استاد نے اس جو ہر قابل کو پہچان اورپرکھ کردرس کاکام بھی ان کے سپرد کردیا۔ 1085ء میں امام الحرمین کا انتقال ہوگیا اس وقت تک امام غزالی ان کے ساتھ تھے اورمختلف علوم وفنون میں ماہر ہو چکے تھے خصوصاً ادبیات، فقۂ، اصول، حدیث اورکلام وغیرہ میں کافی دسترس حاصل کرچکے تھے اوران کی شہرت تمام اسلامی دنیا میں پھیل چکی تھی۔ تصنیف و تالیف کا کام بھی شروع کر چکے تھے۔ امام غزالی کی عمر اس وقت28سال تھی جب وہ مختلف علوم وفنون میں ماہر ہو چکے تھے۔
استاد کے انتقال کے بعد انہوں نے نیشا پور سے مکہ کا رخ کیا جہاں نظام الملک طوسی وزیر اعظم سلطان ملک شاہ سلجولی کا قیام تھا۔ نظام الملک طوسی امام صاحب کے علم وفضل کا شہرہ سن چکا تھا اس نے بڑی تعظیم وتکریم کے ساتھ ان کااستقبال کیا اوران کی بڑی آؤ بھگت کی ۔ نظام الملک کے دور میں ایران نے علم وفضل میں بہت ترقی کی ، مختلف علوم پرکتابیں لکھی گئیں کسی کے علم وفضل کا امتحان لینا ہوتا تو مناظرہ کروا دیتے۔ چنانچہ نظام المک نے امام صاحب کے امتحان کے لئے علمی مباحثے اورمناظرے کروائے اورامام صاحب ہر مناظرے میں غالب رہے۔ ایک دفعہ مشہور شاعر عمر خیام سے بھی امام صاحب کا فلسفہ کے مسائل پر مباحثہ ہوا جس میں عمر خیام لاجواب ہوگیا اورکسی ضرورت کا عذر کر کے محفل سے اٹھ کر چلا گیا۔ یہ امام صاحب کی بہت بڑی جیت تھی۔
اس زمانے میں مدرسہ نظامیہ بغداد اسلامی علوم وفنون کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی۔ نظام املک نے اس کی صدارت کے لئے امام صاحب کومنتخب کیا۔ یہ عہدہ اس شخص کوملتا تھا جو اس دور میں سب سے بڑا عالم ہو۔ امام صاحب جب اس عہدے پر فائز ہوئے تو ان کی عمر صرف 34سال تھی۔ اس عمر میں یہ اعزاز کسی کو حاصل نہ ہواتھا۔ جب آپ نے اس کی صدارت سنبھالی تو تھوڑے ہی عرصے میں اپنے فضل وکمال سے ارباب سلطنت کواتنا گرویدہ کرلیا کہ سلطنت کے اہم امور بغیر ان کے مشورے سے سرانجام نہیں پا سکتے تھے۔
امام صاحب کے حلقۂ درس میں شاگردوں کی تعداد تین سو تک تھی اور شہر کے بڑے معزز لوگ اس میں شریک ہوتے تھے۔ آپ چار سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ امام غزالی اپنے دور کے بہت بڑے مفکر، فلسفی، ماہرفقہ اورماہر تعلیم تھے۔ امام صاحب اتنی عظیم شخصیت کے مالک تھے کہ دنیا آج تک ان کے علم کا لوہا مانتی ہے۔ ان کے خیالات اورنظریات آج تک لوگوں کے دلوں کو گرمارہے ہیں۔
آپ نے تعلیم میں نئے نظریات پیش کئے۔ امام صاحب کے نزدیک تعلیم کا مقصد
صرف معلومات فراہم کرنا نہیں تھا۔ آپ نے اس بات پر زور دیا کہ تعلیم کے ذریعے ایک طالب علم روحانی انداز سے روشناس ہوسکتا ہے اورخدا وند تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے۔انہوں نے مذہبی اور غیر مذہبی مضامین میں تفریق کی۔ تمام علوم کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ پہلا حصہ جو فرض عین کے نام سے مشہور ہے جو ہر مسلمان کے لئے لازمی ہے اوردوسرا حصہ فرض کفایہ کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ امام صاحب نے نصاب تعلیم کی بھی اصلاح کی۔ آپ نے ہر مضمون کے لئے کتابوں کی نوعیت اورضخامت بھی مقرر کی۔ منطق اورفلسفہ کو نصابِ تعلیم میں داخل کیا۔ امام صاحب نے نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں۔ طلبا اوراساتذہ دونوں کے لئے ایسے مفید اورکار آمد اصول مقرر کئے کہ ان پر عمل پیرا ہو کر قابل اورمثالی اساتذ پیدا ہو سکتے ہیں۔
امام غزالی نے مسلمانوں کے ہر شعبۂ زندگی پر غور و فکر کی نظر ڈالی۔ علم وحکمت کی اصلاح کی، سیاست واخلاق میں صحیح راہ دکھائی۔ ان کی اصلاحات کو عوام وخواص سب نے قبولیت کا شرف بخشا۔ آپ نے جدید علم کلام کی بنیاد رکھی، فلسفہ کی اصلاح کی۔ تعلیم کے لئے بہترین لائحہ عمل پیش کیا۔ اخلاقی تعلیم پرزور دیا۔ صنعت و حرفت کی تعلیم کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی، علوم مقننہ کو درس و تدریس کا خاص جزو بنایا۔
امام غزالی بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ کی بیشتر تصانیف فقہ، کلام، منطق، اخلاق اور تصوف پر مشتمل ہیں۔ آپ کی سب سے قیمتی اورمفید کتاب احیاء العلوم ہے جس کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کتاب سے اسلامی دنیا نے کافی استفادہ کیا۔ یورپ نے بھی اس کتاب سے خاص طورپر فائدہ اٹھایا۔ اس کا اصل نسخہ کتب خانہ برلن میں موجود ہے۔ فارسی میں کیمیائے سعادت ایک بلند پایہ تصنیف ہے۔ فقہ میں وسط بسیط مشہور و معروف کتابیں ہیں۔ فلسفہ میں مقاصد الفلاسفہ اورتہافتہ الفلاسفہ، منطق میں معیار العلم، محک نظر اور میزان العمل قابلِ ذکر ہیں المنقذ امام صاحب کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔
امام غزالی کی وفات کا واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ انتقال کے دن آپ بالکل صحیح حالت میں تھے۔ صبح سویرے اٹھے، وضوکیا، نماز پڑھی۔اپنا کفن منگوایا اس کو چوما اورآنکھوں سے لگا کر کہا، آقا کا حکم سر آنکھوں پر اس کے بعد قبلہ رخ ہو کر لیٹ گئے اورروح پرواز کر گئی۔ امام صاحب کا انتقال دنیائے اسلام کے لئے ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ تمام اسلامی ممالک میں صف ماتم بچھ گئی اور شعرا نے عربی اورفارسی میں بے شمار مرثیے لکھے ان میں ابو منطفہ الا بیوادی کے عربی مرثیے بہت مشہور ہیں۔
ڈاکٹر فوزیہ تبسم
امام غزالی کا اصل نام ابو حمید غزالی ہے۔ امام غزالی 1054ء میں خراسان کے چھوٹے سے شہر طوس میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سوت کا کاروبار کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا نام غزالی پڑگیا۔غزالی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں سوت بنانے والا۔علامہ سمعیانی کے اس خیال سے کوئی بھی اتفاق نہیں کرتا کہ امام غزالی طوس کے ایک گاؤں غزال سے تعلق رکھتے تھے۔
امام غزالی کے عہد میں تعلیم عام تھی۔ کوئی فرد بھی تعلیم سے بے بہرہ نہ تھا حتیٰ کہ ایک عام آدمی بھی اعلیٰ تعلیم بآ سانی حاصل کرسکتا تھا اوراسے ہر طرح کی آسائشیں میسر تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے نامور مسلم مفکرین معاشرے کے عام طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ امام غزالی کے والد اَن پڑھ آدمی تھے۔ انہوں نے بستر مرگ پر اپنے قریبی دوست کو یہ تلقین کی کہ وہ میرے دو لڑکوں جن میں امام غزالی بھی شامل تھے اپنی نگرانی میں رکھے اورانہیں اچھی سے اچھی تعلیم دلوائے۔ انہوں نے اپنی تمام پونجی ان کے سپرد کردی تاکہ وہ ان کی کفالت کرسکے۔ کچھ عرصہ تک یہ دو لڑکے اچھی تعلیم حاصل کرتے رہے لیکن یہ پونجی جلد ہی ختم ہوگئی اوربادلِ نخواستہ انہیں ان لڑکوں کو کہنا پڑا کہ وہ اپنا روزگار تلاش کریں۔ اس دور میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی کوئی کمی نہ تھی۔
نجی تعلیمی اداروں میں اس عہد کے علماء فضلاء درس دیا کرتے تھے اور ان اداروں میں غریب گھرانوں کے بچے بھی بآسانی تعلیم حاصل کرسکتے تھے یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند نوجوانوں کو ہر طرح کی سہولتیں میسر تھیں۔ چنانچہ امام غزالی نے ان سہولتوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک مقامی استاد احمد بن محمد ازکانی سے حاصل کی ۔ ابتدائی تعلیم ختم کرنے کے بعد وہ جرجان کی طرف روانہ ہوئے جہاں پر انہوں نے امام صاحب کی تقریریں قلم بند کیں۔ اس زمانے میں ان تقریروں کو تعلیقات کانام دیا جاتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد جرجان سے پھر واطن واپس آئے۔ جب وطن واپس آرہے تھے تو راستے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے امام غزالی کی زندگی کی کایاپلٹ دی۔
جس قافلہ میں امام صاحب تھے اس پرڈاکوؤں نے حملہ کردیا اورامام صاحب کا سب سازوسامان چھین لیا یہاں تک کہ ان کے ضروری کاغذات بھی چھین لئے۔ امام صاحب نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا کہ مجھے سازوسامان کی ضرورت نہیں مگر میرے کاغذات واپس کر دو وہی میرا سرمایہ ہے۔ اس علم کو حاصل کرنے کی خاطر میں نے جنگلوں کی خاک چھانی اوراتنا طویل سفر اختیار کیا۔ ڈاکوؤں کا سردارہنس پڑا اورطنزیہ لہجے میں بولا تو پھر تم نے کیا خاک سیکھا جب کاغذ نہ رہے تو تم کورے رہ گئے یہ کہہ کر اس نے انہیں کاغذات واپس کردیئے۔ اس بات کاامام غزالی پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ طوس پہنچ کر ان کاغذات پر جو لکھا ہوا تھا وہ تمام ضائع کر ڈالا۔ امام صاحب تین سال تک وطن میں رہے اورپڑھے ہوئے علوم کودہرانے میں مصروف رہے۔
اس زمانے میں نیشاپور علوم و فنون کا مرکزتھا۔ امام صاحب نے جب بھی علمی تشنگی محسوس کی تو انہوں نے نیشا پور کی راہ لی اوروہاں اس دور کے سب سے بڑے عالم امام الحرمین ابو المعالی جویئی کے حلقہ درس میں شریک ہوگئے جو مدرسہ نظامیہ نیشاپور کے صدر مدرس تھے۔ یہاں امام صاحب کو علوم مروجہ کی تحصیل وتکمیل کا موقع ملا، فقۂ شافعی، علم کلام، مقدمات اورفلسفہ میں مہارت تامہ حاصل کی۔ استاد نے اس جو ہر قابل کو پہچان اورپرکھ کردرس کاکام بھی ان کے سپرد کردیا۔ 1085ء میں امام الحرمین کا انتقال ہوگیا اس وقت تک امام غزالی ان کے ساتھ تھے اورمختلف علوم وفنون میں ماہر ہو چکے تھے خصوصاً ادبیات، فقۂ، اصول، حدیث اورکلام وغیرہ میں کافی دسترس حاصل کرچکے تھے اوران کی شہرت تمام اسلامی دنیا میں پھیل چکی تھی۔ تصنیف و تالیف کا کام بھی شروع کر چکے تھے۔ امام غزالی کی عمر اس وقت28سال تھی جب وہ مختلف علوم وفنون میں ماہر ہو چکے تھے۔
استاد کے انتقال کے بعد انہوں نے نیشا پور سے مکہ کا رخ کیا جہاں نظام الملک طوسی وزیر اعظم سلطان ملک شاہ سلجولی کا قیام تھا۔ نظام الملک طوسی امام صاحب کے علم وفضل کا شہرہ سن چکا تھا اس نے بڑی تعظیم وتکریم کے ساتھ ان کااستقبال کیا اوران کی بڑی آؤ بھگت کی ۔ نظام الملک کے دور میں ایران نے علم وفضل میں بہت ترقی کی ، مختلف علوم پرکتابیں لکھی گئیں کسی کے علم وفضل کا امتحان لینا ہوتا تو مناظرہ کروا دیتے۔ چنانچہ نظام المک نے امام صاحب کے امتحان کے لئے علمی مباحثے اورمناظرے کروائے اورامام صاحب ہر مناظرے میں غالب رہے۔ ایک دفعہ مشہور شاعر عمر خیام سے بھی امام صاحب کا فلسفہ کے مسائل پر مباحثہ ہوا جس میں عمر خیام لاجواب ہوگیا اورکسی ضرورت کا عذر کر کے محفل سے اٹھ کر چلا گیا۔ یہ امام صاحب کی بہت بڑی جیت تھی۔
اس زمانے میں مدرسہ نظامیہ بغداد اسلامی علوم وفنون کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی۔ نظام املک نے اس کی صدارت کے لئے امام صاحب کومنتخب کیا۔ یہ عہدہ اس شخص کوملتا تھا جو اس دور میں سب سے بڑا عالم ہو۔ امام صاحب جب اس عہدے پر فائز ہوئے تو ان کی عمر صرف 34سال تھی۔ اس عمر میں یہ اعزاز کسی کو حاصل نہ ہواتھا۔ جب آپ نے اس کی صدارت سنبھالی تو تھوڑے ہی عرصے میں اپنے فضل وکمال سے ارباب سلطنت کواتنا گرویدہ کرلیا کہ سلطنت کے اہم امور بغیر ان کے مشورے سے سرانجام نہیں پا سکتے تھے۔
امام صاحب کے حلقۂ درس میں شاگردوں کی تعداد تین سو تک تھی اور شہر کے بڑے معزز لوگ اس میں شریک ہوتے تھے۔ آپ چار سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ امام غزالی اپنے دور کے بہت بڑے مفکر، فلسفی، ماہرفقہ اورماہر تعلیم تھے۔ امام صاحب اتنی عظیم شخصیت کے مالک تھے کہ دنیا آج تک ان کے علم کا لوہا مانتی ہے۔ ان کے خیالات اورنظریات آج تک لوگوں کے دلوں کو گرمارہے ہیں۔
آپ نے تعلیم میں نئے نظریات پیش کئے۔ امام صاحب کے نزدیک تعلیم کا مقصد
صرف معلومات فراہم کرنا نہیں تھا۔ آپ نے اس بات پر زور دیا کہ تعلیم کے ذریعے ایک طالب علم روحانی انداز سے روشناس ہوسکتا ہے اورخدا وند تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے۔انہوں نے مذہبی اور غیر مذہبی مضامین میں تفریق کی۔ تمام علوم کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ پہلا حصہ جو فرض عین کے نام سے مشہور ہے جو ہر مسلمان کے لئے لازمی ہے اوردوسرا حصہ فرض کفایہ کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ امام صاحب نے نصاب تعلیم کی بھی اصلاح کی۔ آپ نے ہر مضمون کے لئے کتابوں کی نوعیت اورضخامت بھی مقرر کی۔ منطق اورفلسفہ کو نصابِ تعلیم میں داخل کیا۔ امام صاحب نے نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں۔ طلبا اوراساتذہ دونوں کے لئے ایسے مفید اورکار آمد اصول مقرر کئے کہ ان پر عمل پیرا ہو کر قابل اورمثالی اساتذ پیدا ہو سکتے ہیں۔
امام غزالی نے مسلمانوں کے ہر شعبۂ زندگی پر غور و فکر کی نظر ڈالی۔ علم وحکمت کی اصلاح کی، سیاست واخلاق میں صحیح راہ دکھائی۔ ان کی اصلاحات کو عوام وخواص سب نے قبولیت کا شرف بخشا۔ آپ نے جدید علم کلام کی بنیاد رکھی، فلسفہ کی اصلاح کی۔ تعلیم کے لئے بہترین لائحہ عمل پیش کیا۔ اخلاقی تعلیم پرزور دیا۔ صنعت و حرفت کی تعلیم کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی، علوم مقننہ کو درس و تدریس کا خاص جزو بنایا۔
امام غزالی بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ کی بیشتر تصانیف فقہ، کلام، منطق، اخلاق اور تصوف پر مشتمل ہیں۔ آپ کی سب سے قیمتی اورمفید کتاب احیاء العلوم ہے جس کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کتاب سے اسلامی دنیا نے کافی استفادہ کیا۔ یورپ نے بھی اس کتاب سے خاص طورپر فائدہ اٹھایا۔ اس کا اصل نسخہ کتب خانہ برلن میں موجود ہے۔ فارسی میں کیمیائے سعادت ایک بلند پایہ تصنیف ہے۔ فقہ میں وسط بسیط مشہور و معروف کتابیں ہیں۔ فلسفہ میں مقاصد الفلاسفہ اورتہافتہ الفلاسفہ، منطق میں معیار العلم، محک نظر اور میزان العمل قابلِ ذکر ہیں المنقذ امام صاحب کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔
امام غزالی کی وفات کا واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ انتقال کے دن آپ بالکل صحیح حالت میں تھے۔ صبح سویرے اٹھے، وضوکیا، نماز پڑھی۔اپنا کفن منگوایا اس کو چوما اورآنکھوں سے لگا کر کہا، آقا کا حکم سر آنکھوں پر اس کے بعد قبلہ رخ ہو کر لیٹ گئے اورروح پرواز کر گئی۔ امام صاحب کا انتقال دنیائے اسلام کے لئے ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ تمام اسلامی ممالک میں صف ماتم بچھ گئی اور شعرا نے عربی اورفارسی میں بے شمار مرثیے لکھے ان میں ابو منطفہ الا بیوادی کے عربی مرثیے بہت مشہور ہیں۔
ڈاکٹر فوزیہ تبسم
0 Comments